کون سا وزیر ’’پاکستان‘‘ کے مفاد میں ہے اور کون سا نہیں، یہ فیصلہ کرنے کا حق وزیراعظم کے پاس ہے۔ جس طرح کون سا حکمران اس ’’ملک‘‘ کے مفاد میں ہے، یہ حق بھی کسی نہ کسی کے پاس ہے نہ کہ وزیراعظم یا غریب عوام کے پاس۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ ’’ریاست‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، صرف سوچ میں فرق ہے۔
دورہَ ایران کے تناظر میں صرف خرم دستگیر کا اسمبلی میں جواب دے دینا کافی نہیں ہے۔ کیا اس کی وجہ نا اہلی یا بھول ہے یا پھر معاملے کی نوعیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے دانستہ طور پر خاموشی اختیار کی گی ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زبان جو جرمنی اور جاپان کے سیاق و سباق میں پھسل گئی تھی، اس نے مارکیٹ میں مندی کا رجحان پیدا کر دیا ہو جو اسمبلی کے ماحول اور سوشل میڈیا میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے دورہ ایران کے دوران اپنے بیان میں غیر ریاستی عناصر کی جانب اشارہ کیا تھا، وضاحت
اس دورہَ ایران کا سب سے اچھا پہلو ہمارے وزیراعظم کا ’’ریاست‘‘ کے مفاد میں اپنی سرزمین پاکستان کا ایران کے خلاف استعمال ہونے کا اعتراف ہے۔ میری نظر میں علاقائی لحاظ سے یہ ایک خوش آئند اور بڑا قدم ہے اور اندرونی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’ریاست‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ کے مفادات اب یکساں ہیں۔ اور وہ دونوں کم از کم اس موضوع پر ایک صفحے پر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک صف میں بھی کھڑے ہیں۔
ایک صفحے پر آ گیا ملک اور پاکستان
باقی رہ گئے عوام اور کچھ سیاستدان
امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے 15 اپریل کو کہا کہ ایک کیڈٹ کے طور پر ان کی ویسٹ اکیڈمی کا منشور تھا کہ نہ جھوٹ بولوں گا اور نہ بولنے والوں کو برداشت کروں گا۔ نہ بے ایمانی کروں گا اور نہ ہی کبھی چوری۔ پومپیو نے اقرار کیا کہ پھر سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے طور ہم نے جھوٹ بھی بولا، بے ایمانی اور چوری بھی کی۔ سیکرٹری نے اسں پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس امریکی تجربے کو ایک عظمت قرار دیا، یعنی دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے جھوٹ اور سچ کی قیمت واضح کر دی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس تناظر میں ہمارے وزیراعظم عمران خان کے دورہَ ایران میں بولا گیا سچ کس بھاؤ بکتا ہے۔ ملکی، علاقائی اور عالمی منڈیوں میں اس سچ کی قیمت کیا لگتی ہے؟ اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
قیمت اور بھاؤ میں وہی فرق ہے جو ’’پاکستان‘‘ اور ’’ریاست‘‘ میں ہے۔ قیمت ڈرائنگ روم یا بیٹھک میں لگتی ہے اور بھاؤ منڈیوں میں۔ کل ہماری اسمبلی کی منڈی میں تو مندی کا رجحان رہا۔ اپوزیشن کے آڑھتیوں نے پہلے بولی لگائی، پھر جب حکومتی ارکان کی باری آئی تو بولی کی پرچیاں پھاڑ کر آوازیں کسنا شروع کر دیں اور وہ اس وقت تک جاری رہے جب تک اذان کی آواز ہال میں نہیں گونجی۔ شکر ہے منڈی میں پہلے کی طرح باجماعت نماز ادا نہیں کر دی۔ اگر مولانا فضل الرحمان ہوتے تو شاید نماز قہر کی ادائیگی بھی ہو جاتی۔
یہ بھی پڑھیں: دورہ ایران: عمران خان کے متازع بیان پر مریم نواز کا ردعمل
اس سچ کی پاداش میں ہمیں بھارت یا افغانستان کی منڈیوں سے اچھے بھاؤ یا برتاؤ کی امید نہیں ہونی چاہئے اور کسی اچھی قیمت کی توقع تو خام خیالی ہو گی۔ ایران سے وابستہ امیدوں کے پورا ہونے کا انحصار بھی ان اقدامات پر ہو گا جو ’’ریاست‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ ایک صفحے پر رہ کر اور ایک صف میں کھڑے ہو کر مستقبل قریب میں کریں گے۔
اس دورے اور وزیر اعظم کے سچ پر آخری بات یہ کہ جتنا فرق حکومت میں آنے اور حکومت کرنے میں ہے، اتنا ہی فرق وعدہ کرنے اور نبھانے میں بھی ہے، چاہے پاکستان ہو یا ایران اور اس کی سمجھ ہمارے وزیراعظم سے بہتر کسی اور کو نہیں۔