وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز آج پولیس کی ایک تقریب میں شریک ہوئیں تو انہوں نے پولیس یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب کسی وزیر اعلیٰ نے کسی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اس ادارے کی یونیفارم کو زیب تن کیا۔ مریم نواز نے پولیس یونیفارم کیوں پہنا؟ کیا تاریخ میں پہلے کبھی کسی وزیر اعلیٰ نے پولیس یونیفارم پہنا؟ عدالت نے اندارج مقدمہ کی درخواست پر کیا حکم جاری کیا؟ یہ رپورٹ انہی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش پر مبنی ہے۔
سوشل میڈیا پر مریم نواز کے پولیس یونیفارم پہننے پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا اور یہ تنازع اب عدالت جا پہنچا ہے۔ ایک شہری وقار علی شاہ نے عدالت سے رجوع کیا ہے اور درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ مریم نواز کے خلاف پولیس یونیفارم پہننے پر مقدمہ درج کیا جائے اور آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور سمیت دیگر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
لوگوں کی رائے ہے کہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت صوبے کے سربراہ کی ہوتی ہے اور صوبے کے سرابرہ کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی ادارے کی یونیفارم پہنے کیونکہ انہوں نے کل کو اس ادارے کی کارکردگی پر سوال بھی پوچھنا ہے اور اس بارے میں بات چیت بھی کرنی ہے۔ جب ایک وزیر اعلیٰ کسی ادارے میں اس طرح جائیں گی تو اس سے اس ادارے کی ساکھ تو متاثر ہو گی ہی، اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے سربراہ کی اپنی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان اٹھے گا۔
شہری وقار علی شاہ نے اپنے وکیل اور سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آفتاب احمد باجوہ کی وساطت سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ تھانہ پرانی انار کلی کو مقدمہ درج کرنے کی تحریری درخواست دی تھی مگر فرنٹ ڈیسک پر موجود افسران نے یہ کہہ کر درخواست وصول کرنے سے انکار کیا کہ یہ تو ان کے افسران کے خلاف درخواست ہے اس لئے وہ اسے وصول نہیں کر سکتے۔ آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ کے بقول فرنٹ ڈیسک پر داد رسی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے عدالت میں درخواست دائر کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔
'نیا دور' نے پنجاب پولیس اور حکومت پنجاب کا مؤقف جاننے کے لیے رابطے کیے مگر پنجاب پولیس کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز مبشر نے اس پر مؤقف دینے سے واضح طور پر منع کر دیا اور یہ کہا کہ اس معاملہ پر پنجاب حکومت سے بات کی جائے جبکہ فرنٹ ڈیسک پر اندراج مقدمہ کی درخواست وصول کیوں نہیں کی گئی، اس سوال پر بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آفتاب احمد باجوہ کے بقول صدر مملکت آرمی کا سربراہ ہوتا ہے، کل کو وہ بھی آرمی چیف کا یونیفارم پہن کر آرمی چیف کی چھٹی کروا دے گا؟ ایسے نہیں ہوتا، یونیفارم کی اپنی تکریم ہوتی ہے اور متعلقہ ادارے کے ملازم کے علاوہ کوئی بھی یونیفارم نہیں پہن سکتا۔ آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئین کے تحت تمام شہری برابر ہیں۔ چند روز قبل ایک طالب علم نے ایک شرٹ پہن کر ویڈیو بنائی جس پر SSG لکھا ہوا تھا، اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تو مریم نواز کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں ہو سکتا؟ درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ آئی جی پنجاب سے بڑا ہوتا ہے۔ مریم نواز نے پولیس یونیفارم پہن کر تعزیرات پاکستان کی دفعات 170، 171 اور 419 کی خلاف ورزی کی جس کی سزا 7 برس قید اور جرمانہ ہے۔ عدالت مریم نواز کو طلب کرے گی اور ان سے اس امر کی وضاحت مانگے گی۔ مریم نواز عدالت میں پولیس یونیفارم پہننے کی بابت سوال سے انکار نہیں کر سکیں گی۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے مریم نواز کے پولیس یونیفارم پہننے پر تنقید کرنے والوں کو سخت الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز کے پولیس یونیفارم پہننے پر وہ ٹولہ تنقید کر رہا ہے جن کا اپنا لیڈر اپنی ہی بیٹی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، تنقید کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ صبر دے۔ وزیر اطلاعات پنجاب کہتی ہیں کہ پوری دنیا میں سربراہان مملکت یونیفارم پہن کر اپنی فورسز کی عزت و تکریم میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ایک روایت ہے، میاں نواز شریف نے بھی اپنے دور حکومت میں یہی کیا تھا جس کو مریم نواز نے برقرار رکھا۔
عظمیٰ بخاری کے بقول مریم نواز کے اس عمل پر جلنے اور سڑنے کی ضرورت نہیں، مریم نواز پاکستان کی خواتین کے لیے فخر کا باعث ہیں۔ برقعے کی آڑ میں ہیرے کی انگوٹھیاں، ٹرانسفر پوسٹنگ اور قیمتی جیولری چوری کا دھندہ چلایا گیا جبکہ مریم نواز نے پولیس کا یونیفارم پہن کر پنجاب پولیس کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات کہتی ہیں کہ پروپیگنڈا برگیڈ کا لیڈر عمرہ کرنے ننگے پاؤں جاتا تھا لیکن خانہ کعبہ والی گھڑی چوری کر کے ڈھٹائی سے اسے فروخت کرنے پر بھی فخر کرتا تھا۔ مریم نواز پنجاب میں جہاں بھی جا رہی ہیں ہر طرف خواتین ان کا والہانہ استقبال کرتی ہیں۔ مریم نواز پنجاب کی خواتین کے لیے رول ماڈل کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ مریم نواز کو پروپیگنڈا ٹرولز اور گالم گلوچ برگیڈ کی کردار کشی مہم سے فرق نہیں پڑتا۔ مریم نواز پنجاب کی خدمت کرنے آئی ہیں اور وہ انشاء اللہ اس میں کامیاب ہوں گی۔
ایڈیشنل سیشن جج مظفر نواز نے ابتدائی سماعت کے بعد درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ 29 اپریل تک ایسی دستاویزات پیش کریں جن سے یہ ثابت ہو کہ پولیس نے مریم نواز، آئی جی پنجاب سمیت دیگر کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست وصول کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ مختلف کھلاڑیوں، مختلف نامور لوگوں کو پولیس کی طرف سے اعزازی طور پر ایک عہدہ دیا جاتا ہے لیکن یہ عہدہ برائے نام اور علامتی ہوتا ہے۔ اس کا مقصد صرف پولیس کی جانب سے انہیں سفیر کا درجہ دینا ہوتا ہے۔ کچھ کھلاڑیوں کو بھی اس سلسلے میں ماضی میں یہ اعزازی عہدے دیے گئے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کا اس یونیفارم کو پہننا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
جب یہ سٹوری فائل کی گئی اس وقت تک پنجاب پولیس سے فرنٹ ڈیسک پر آنے والی درخواست موصول نہ کرنے اور مقدمہ درج نہ کئے جانے کے بارے میں پوچھے گئے سوالات پر کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔