سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید ان دنوں فوجی تحویل میں ہیں اور ان سے تحقیقات جاری ہیں۔ ان تحقیقات میں ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے کہ جنرل فیض حمید نے دو لگژری گاڑیاں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کو تحفے میں دی تھیں اور یہ وہ گاڑیاں تھیں جو ٹاپ سٹی کے مالک کنور معیز کے گھر پر چھاپہ مار کر قبضے میں لی گئی تھیں۔ یہ دونوں گاڑیاں جسٹس ثاقب نثار سے واپس لے لی گئی ہیں۔ یہ انکشاف کیا ہے صحافی فخر درانی کا۔
یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے صحافی فخر درانی نے بتایا کہ 2017 میں جب ڈی جی آئی ایس آئی کے ایما پر اسلام آباد میں واقع ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو اس دوران 400 تولے سونا اور کروڑوں روپے نقدی کے ساتھ دو لگژری گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئی تھیں۔ فیض حمید کے خلاف جب ٹاپ سٹی کے مالک کنور معیز یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئے تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اوپن کورٹ کارروائی کے بجائے اس معاملے کو ان چیمبر میں فریقین کے مابین افہام و تفہیم کے ذریعے ختم کروانے میں کوشاں ہو گئے۔ اسی کوشش کے جواب میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے ٹاپ سٹی سے لوٹی ہوئی دونوں گاڑیاں چیف جسٹس ثاقب نثار کو تحفے میں دے دی تھیں۔ ان میں سے ایک گاڑی چیف جسٹس کے استعمال میں رہی جبکہ دوسری گاڑی سابق جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کے زیر استعمال رہی۔
فخر درانی نے مزید بتایا کہ دونوں باپ بیٹا یہ لگژری گاڑیاں کئی سال تک استعمال کرتے رہے مگر ٹاپ سٹی کا یہ معاملہ جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں دوبارہ سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا اور میڈیا میں بھی اس سے متعلق باتیں شروع ہوئیں تو جسٹس ثاقب نثار نے خاموشی سے یہ گاڑی واپس کر دی۔ جبکہ ان کے بیٹے نجم ثاقب یہ لگژری گاڑی تب تک استعمال کرتے رہے جب تک جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری نہیں شروع ہوئی اور بالآخر رینجرز نے جا کر نجم ثاقب سے یہ لگژری گاڑی واپس لی۔
صحافی کے مطابق جنرل فیض حمید سے دوران حراست اس معاملے پر بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
فخر درانی کے مطابق انہوں نے اس معاملے پر بیرون ملک چھٹیاں گزارتے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے فون پر رابطہ کیا تو وہ غصے میں آ گئے اور انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ انہیں چھٹیاں سکون سے گزارنے دی جائیں اور ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ کیا جائے۔
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کا نام جنرل فیض حمید کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اس تعلق کی بازگشت سنی جا چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت صدیقی نے بھی ماضی میں چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ وہ جنرل فیض حمید کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔
ثاقب نثار کے بارے میں متعدد رپورٹس آ چکی ہیں کہ وہ فوج کی جانب سے تیار کیے گئے 'پروجیکٹ عمران' کی تیاری اور اس کی لانچنگ میں شامل تھے۔ نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد پارٹی کی سربراہی سے بھی نااہل کر دیا گیا تھا۔
2018 کے انتخابات کے دوران اگر جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار تھے۔ بڑے پیمانے پر یہ انتخابات مینیج کیے گئے اور عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے خلاف جس انداز میں مقدمے بنائے گئے اور جیسے ان کی گرفتاریاں ہوئیں، اس سارے معاملے میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی آشیرباد شامل تھی۔
جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو چکی ہے اور جب سے فیض حمید فوج کی تحویل میں ہیں تب سے میڈیا میں ان کے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے مابین رابطوں اور تعلق سے متعلق رپورٹس آ رہی ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض اور ثاقب نثار رابطے میں تھے اور ان رابطوں کی تصدیق خود ثاقب نثار نے بھی کی ہے۔
مبصرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر فیض حمید سے تحقیقات کے دوران ٹھوس شواہد مل گئے تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی حراست میں لیا جا سکتا ہے۔