پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی نے متنازع ٹوئٹس سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پر 'جانبدار' ہونے کی بنیاد پر عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے درخواست ضمانت کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے کی استدعا کی۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف عدم اعتماد کا خط لکھا جس میں درخواست ضمانت کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے کی استدعا کی۔
سواتی نے اپنے خط میں کہا کہ وہ ایک "جھوٹے مقدمے" میں قید ہیں۔
اپنی رٹ پٹیشن نمبر 4441/2022 کا حوالہ دیتے ہوئے، جسے جسٹس فاروق نے مسترد کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ "ان کے کیس میں طویل تاخیر مطالبہ کرتی ہے کہ اب کہا جائے 'انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے' ۔ یہ ایک "اہم جملہ" تھا جس کی ضرورت چیف جسٹس کے دیر سے آنے والے حکم کی وجہ سے آن پڑی تھی۔ اس حکم کے نتیجے میں سواتی کو اسلام آباد سے شفٹ کردیا گیا۔
اعظم سواتی نے لکھا، "مجھے اغوا کیا گیا اور 2 دسمبر کو پمز ہسپتال، جہاں مجھے داخل کیا گیاتھا، سے غیر قانونی طور پر کوئٹہ ے جایا گیا پھر سندھ لے جایا گیا اور جہاں میرے خلاف 46 جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئیں۔"
انہوں نے کہا کہ آئی ایچ سی کے چیف جسٹس نے ایک ٹویٹ کے بارے میں فیصلہ دیا ہے جو ان کے وکلاء نے خصوصی عدالت کے جج راجہ آصف محمود کو پیش کیا تھا جنہیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر فوری طور پر تبدیل کر دیا گیا۔جس کے بعد کئی دنوں کی تاخیر کے بعد نئے جج کی تقرری کی گئی جس نے سواتی کی درخواست ضمانت کو "میرٹ اور کسی قانونی بنیاد پر غور کیے بغیر مسترد کر دیا۔
سینیٹر نے موقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت کے جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ یہ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر قانونی یا طریقہ کار کی بنیادوں کے بغیر کیا گیا تھا ،" انہوں نے لکھا۔
مزید برآں، سواتی نے اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس یہ ماننے کی "حقیقی اور قانونی بنیاد ہے کہ مجھے آپ کی عدالت سے 'آصف زرداری کیس' پر مبنی تعصب کی وجہ سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ایک اچھی بات کہی کہ اگر کوئی معقول آدمی کہے کہ جج متعصب تھا اور تعصب اعلیٰ عدالت کے فیصلے، حکم یا مشاہدے کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔تعصب اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا۔
سینیٹر اعظم سواتی نے آخر میں لکھا کہ انہیں جسٹس فاروق کی عدالت سے انصاف ملنے کا "کوئی اعتماد" نہیں ہے اور انہوں نے استدعا کی کہ ان کی ضمانت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے کسی دوسرے جج کو" منتقل کی جائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ انصاف کے مفاد میں ہے اور ان کے قانونی اور آئینی بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔
اس سے قبل، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے متنازع ٹوئٹ کیس میں گرفتار اعظم سواتی کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی جس میں اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے درخواست پر وفاق سمیت تمام فریقین سے جواب طلب کرلیا۔
اعظم سواتی نے بابر اعوان کے ذریعے دائر درخواست میں موقف اپنایا کہ مبینہ ٹوئٹس پوسٹ نہیں کیں اعظم سواتی کا کسی ادارے کو بدنام کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا، تفتیش مکمل ہونے کے بعد بھی پراسیکیوشن کے پاس اعظم سواتی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی عمر 75 سال اور عارضہ قلب میں مبتلا ہے۔ تمام کیس دستاویزی الزامات پر مبنی ہے۔ جیل میں رکھنا ٹرائل سے قبل سزا کے مترادف ہوگا۔
تاہم عدالت کی جانب سے وفاق سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔