ہمارا فردسودہ نظامِ تعلیم کب بہتر ہوگا؟

ہمارا فردسودہ نظامِ تعلیم کب بہتر ہوگا؟
میں جب اپنے سکول کے زمانے کو یاد کرتا ہوں تو چاہے وہ میرے گاؤں کا گورنمنٹ پرائمری سکول ہو جہاں سے میں نے پانچویں جماعت تک پڑھا یا پھر شہر کا پرائیویٹ ہائی سکول ہو جہاں سے میں نے میٹرک پاس کیا۔ دونوں میں جو قدریں مشترک تھیں ان میں ایک تو مار کر پڑھانا شامل تھا اور دوسرا پڑھائی میں رٹے کا رجحان تھا۔  آج اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی یہ دونوں عوامل شاید ویسے ہی ہمارے نظامِ تعلیم کا حصہ ہیں۔ جو کہ بہت افسوناک امر ہے۔

کیونکہ آج جب باقی دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور تعلیم ان کی ترجیح میں سب سے اوپر ہے۔ وہاں ہمارے ہاں اس پر شاید سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو کہ دنیا تو کیا جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بھی سب سے کم ہے۔

اس کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق اس وقت 23 ملین سکول جانے کی عمر کے بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔

اور اب تک کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق  پاکستان میں شرح خواندگی 62.3 فیصد ہے۔  گزشتہ چند برسوں میں اس میں کچھ بہتری تو آئی ہے مگر تعلیم کا معیار بجائے بہتر ہونے کے مزید ابتر ہو رہا ہے۔ اور ہم ناصرف سکول لیول پر بلکہ کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی صرف ایسے طالب علم پیدا کر رہے ہیں جن کے پاس شاید ڈگری تو موجود ہے مگر شعور نہیں ہے۔ اس شعور نہ ہونے کی بنیادی وجہ ہمارا یہ فرسودہ تعلیمی نظام ہے ۔

جس میں ایک طرف تو بچوں کو بچپن سے ان کے دماغ میں خوف بٹھا کر انھیں پڑھائی کو ایک مجبوری سمجھ کر اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔  جبکہ دوسری طرف وہی گھسا پٹا ہوا تعلیمی نصاب ہے جس کو رٹا دیا جاتا ہے۔ اس کو موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اور یہ مسئلہ صرف سکولوں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔

تو دوسری طرف ہمارے ہاں تعلیم کے ایک نہیں بلکہ کئی نظام رائج ہیں۔  جن میں گورنمنٹ کے اداراے، پرائیویٹ ادارے اور مدارس شامل ہیں۔ اور تینوں جگہ پر تعلیم کا معیار مختلف ہے۔ مدارس میں تو صرف مذہبی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ غربت کی وجہ سے بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ پھر جو حکومتی تعلیمی ادارے ہیں۔ وہاں پر تو بہت برے حالات ہیں۔ انفراسٹرکچر کی کمی، اساتذہ کی کمی اور قابلیت کا معیار پست ہونا اور فرسودہ تعلیمی نصاب کا پڑھایا جانا ان کے مسائل ہیں۔

جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو کچھ بہتر سہولیات تو مل جاتی ہیں۔ مگر اس کے بدلے ان سے بھاری فیسیں بھی لی جاتی ہیں۔ جو کہ غریب اور متوسط طبقہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو ان میں پڑھانے سے محروم رہ جاتا ہے۔ مگر تعلیم کا معیار یہاں بھی کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ نا تجربہ کار اساتذہ کو کم تنخواہ پر پیسے بچانے کی خاطر رکھا جاتا ہے۔ اور نہ کوئی توجہ تعلیمی نصاب اور پڑھانے کی جدید طریقوں پر ہوتی ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ادارے محض بزنس کے مقصد کے تحت چلائے جارہے ہیں۔ جو کہ تشویش ناک امر ہے۔

اسی طرح ہماری یونیورسٹی لیول کی تعلیم کا معیار بھی بجائے اوپر جانے کے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ وہاں پر بھی بس زیادہ سے زیادہ سی جی پی حاصل کرنے کی ایک دوڑ ہے۔ ریسرچ کا معیار انتہائی پست ہے۔ طلبہ تو طلبہ ہیں پڑھانے والے پروفیسر حضرات کی ترجیح میں بھی ریسرچ شامل نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ٹاپ پانچ سو تعلیمی اداروں میں پاکستان کا ایک آدھ ادارے کا نام ہی آتا ہے۔ جو کہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے۔  

اس لیے تعلیم کےعالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم نے ترقی کرنی ہے؟ اور اگر اس سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ہمیں اپنے فرسودہ تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اور یہ تبدیلیاں تب ہی آسکتی ہیں جب ہماری ریاست اس کو ترجیح سمجھے گی۔ اور تمام سیاسی جماعتیں تعلیم کو اپنےانتخابی منشور میں شامل کریں گی۔

تب ہی ہمیں اچھے اور قابل اساتذہ میسر ہوں گے۔ تب ہی تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ اس میں سچ کی آمیزش کی جاسکے گی۔ اور تب ہی تعلیمی اداروں کی حالت بہتر ہونے کے ساتھ ان میں یکساں نظامِ تعلیم بھی رائج کیا جا سکے گا۔ اگر اب بھی ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو ہماری ملک کی حالت ہر لحاظ سے مزید ابتر ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔