Get Alerts

مسائل کے گرداب سے باہر نکلنے کے لیے ریاستی تعامل کے مجموعی ڈھانچے اور سماج کو دی گئی حیثیت پر کھلے مکالمے کی ضرورت ہے

مسائل کے گرداب سے باہر نکلنے کے لیے ریاستی تعامل کے مجموعی ڈھانچے اور سماج کو دی گئی حیثیت پر کھلے مکالمے کی ضرورت ہے
کل بروز ہفتہ 25 جنوری کو پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد کے زیراہتمام مارگلہ ہوٹل میں ایک قومی سطح کے مکالمے کا انعقاد کیا گیا جس میں ریاست، سماج، حقوق، مذہب اور تحریکوں کے ساتھ جڑے اہم اُمور  پر ملک کی متنوع شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کو بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

مکالمہ پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ’آج کے پاکستان میں مکالمے کی ضرورت‘ پر گفتگو کی گئی جس میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے سابق سربراہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان آئی اے رحمان نے کہا کہ مسائل کے گرداب سے باہر نکلنے کے لیے ریاستی تعامل کے مجموعی ڈھانچے اور سماج کو حاصل حیثیت پر کھلے مکالمے کی ضرورت ہے۔ ملک میں نچلی سطح تک عوامی بہبود اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی جب تک انسانی حقوق کو واضح اہمیت نہیں ملتی۔

ان کا مزید کا کہنا تھا کہ مذہب میں اجتہاد کی وقعت کی بڑی تعبیر یہ ہے کہ اس میں مکالمے کو بہت اہمیت دی گئی ہوتی ہے۔

افتتاحی تقریب میں مصنف اور کنسلٹنگ ایڈیٹر نیوزویک خالد احمد نے جمہوریت اور مکالمے کے مابین تعلق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اصل میں مکالمے کی ثقافت کو فروغ دینے کا نام ہے۔ اس ثقافت کا ملک کے داخلی معاملات اور خارجہ سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ تعلق میں یکساں طور لحاظ کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاق بالخصوص پسماندہ اور بدامنی سے متاثرہ صوبوں کے ساتھ جبر روا رکھنے یا ان کی شکایات کو نظرانداز کرنے کی بجائے ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ اسی طرح ریاست کو چاہیے کہ اتنہاپسندی کا رویہ اپنانے کی وجہ سے جو نقصان اٹھایا ہے اس کا ازالہ کرے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرے۔

اس کے بعد پہلا مکالمہ ’پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کے مستقبل‘ کے عنوان پر تھا جس میں معاون خصوصی وزیراعظم پاکستان برائے داخلی امور واحتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جتنے مسائل ہیں اس کے لیے کسی ایک ادارے یا طبقے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تبدیلی کے عمل میں عوامی حصہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے، اس لیے ان مسائل پر اور ان کے ممکنہ حل کی راہوں کے حوالے سے سماج کے اندر مکالمے کی ضرورت ہے۔ آئین میں ضرورت کے مطابق ترمیم ہوتی رہنی چاہیے تاہم اس کے لیے پہلے قومی مزاج کی استعداد بہت ضروری ہے۔

انہوں نے سماج میں نوجوانوں کے لیے پولیٹیکل اسپیس پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

رکن قومی اسمبلی پیپلزپارٹی شازیہ مری نے صوبائی شناختوں کے تنوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن عموماً ان شناختوں کی بنیاد پر حقوق کے مطالبے پر یہ کہہ طنز کیا جاتا ہے کہ ’فلاں کارڈ‘ کھیلا جا رہا ہے۔

سیشن میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اور افراسیاب خٹک نے بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پارلیمنٹ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اور اس وقت لاقانونیت کی حکمرانی ہے۔ انہوں نے ریاستی رویے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست افغانستان کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ نہیں جو تکلیف دہ بات ہے۔

معروف ماہرِ آئینی اُمور ظفراللہ خان نے ریاستی ڈھانچے کے سکیورٹی اسٹیٹ سے فلاحی اسٹیٹ کی طرف انتقال کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کی حاجت ہے۔ ریاست، سماج اور مذہب کے تعلق اور ملک میں ان کے کرادار پر بھی گفتگو کی گئی۔

سنٹر فار ماڈرن اورنٹیئل اسٹڈیز یونیورسٹی برلن میں پروفسیر وائترخ ریتز نے مدارس اور دیگر طبقات کے مابین کمیونیکشن گیپ کو مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے ایک ہم آہنگ سماج کی تشکیل کے لیے پیش رفت میں رکاوٹ بنتی ہے۔

اسلامی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 80 کی دہائی کے بعد سے مذہبی رجحانات میں جذباتیت در آئی ہے، ظاہری چیزوں پر توجہ زیادہ ہے جبکہ مذہب کا انسانی پہلو غائب ہوگیا ہے۔

سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود اور عمار خان ناصر نے حالیہ مذہبی تحریکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب مذہبی طبقہ ریاست میں اپنی جگہ نہیں پاتا تو پھر وہ سٹریٹ پاور کا استعمال کرتا ہے۔

پاکستان میں معاشی اُتار چڑھاؤ پر رائے دیتے ہوئے سابق ایڈیٹر ڈان ضیاالدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری معاشی صورتحال اُمید افزا نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی صحیح سمت کا تعین نہیں کیا۔

سابق مشیر برائے معاشی اُمور ڈاکٹر قیصر بنگالی نے وژن کی عدم موجودگی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ جبکہ صحافی و کالم نگار افشاں صبوحی کا کہنا تھا کہ ہماری اشرافیہ کے ہاں ملک سے وابستگی کا کوئی احساس موجود نہیں ہے، ہم مسائل اور اور ملک کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

کوآرڈینیٹر برائے پاک چین اقتصادی راہداری رفیع اللہ کاکڑ نے رائے دی کہ اصل مسئلہ سیاستدانوں اور عوام کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔

جنوبی ایشیاء کے سیاسی و تزوایراتی منظرنامے کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق سفیر عزیز احمد جان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے کوششیں جاری رکھنی چاہیئں، جبکہ طالبان مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بھی بات چیت ہونی چاہیے اگرچہ اتنا آسان نہیں۔

دفاعی تجزیہ کار اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان بھارت تنازعے کو جنوبی ایشیائی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور آنے والے وقت میں سارک کانفرنس میں دونوں ممالک کی اہم شخصیات کے مابین ممکنہ ملاقات اہم کردار ادا کرے گی۔

اسکول آف پالیٹکس ڈیپارٹمنٹ قائداعظم یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر ظفرجسپال کا کہنا تھا کہ بھارت کا رویہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے معاشی بہتری اہم ہے۔

اسی تناظر میں مصنف وصحافی حالد احمد نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ مقابلہ بازی کے رجحان سے باہر آنے کی ضرورت پر زور دیا۔

مکالمہ پاکستان میں یہ سوال بھی موضوعِ بحث رہا کہ کیا پاکستان میں جنگ کے خلاف جنگ جیتی جا چکی ہے؟ اس پر ڈائریکٹر نیشنل انیشیئٹو اگینسٹ آرگنائزڈ کرائم پاکستان طارق کھوسہ نے ملک میں نظر آنے والی آئیڈیالوجیکل متشدد ذہنیت کی بقا پر خطرہ قرار دیا جو ابھی باقی ہے۔

سابق مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے ملک کی موجودہ صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے سے بہت بہتر حالت میں ہیں اور آنے والا وقت ایک مکمل پرامن پاکستان کا چہرہ لے کر آئے گا۔

سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے طارق پرویز کا حالیہ منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے کہنا تھا کہ عسکریت پسندی اور حقوق کی تحریکوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔ کیا فضا تخلیقی اظہار کے لیے سازگار ہے؟

اس مکالمے کی چیدہ شخصیات میں سے ایک ممتاز شاعر افتخار عارف نے کہا کہ پاکستان میں ادبی اظہاریوں کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ انہوں نے ملک کی مقامی زبانوں کے ادب کے فروغ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں معروف صحافی غازی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ موجود صورتحال ضیاالحق کے عہد سے بھی مشکل ہے کیونکہ اب اُمید دم توڑ رہی ہے۔

صحافی وکالم نگار یاسر پیرزادہ نے کہا کہ جبر کے دور میں تخلیق کے مواقع بڑھ جاتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔ موسیقار و گلوکار اریب اظہر اور ڈائریکٹر اجوکا تھیٹر شاہد محمود ندیم نے بھی مکالمے میں اظہار خیال کیا ان کے مطابق تخلیقی اظہار کے لیے راستے ملتے نہیں بلکہ تلاش کرنے پڑتے ہیں اس لیے ناامید ہونے کی بجائے پرامید رہتے ہوئے کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔

نوجوان، طلبہ تحریکیں اور اُبھرتے ہوئے سیاسی رجحانات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مینیجر پراجیکٹ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے کہا کہ طلبہ یوننینز کی بحالی کی ضرورت تو ہے لیکن اس کے لیے ایک ضابطہ کار تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

یوتھ ایکٹیوسٹ عمار علی جان نے طلبہ میں تنقیدی شعور کے فروغ کا واحد ذریعہ یونینز سے پابندی اٹھانا ہے۔

ماہر اُمور نوجوانان اقبال حیدر بٹ اور عمیر راجہ نے کہا کہ حالات اتنے صحت مند نہیں ہیں کہ یوینیز کو بحال کرکے طلبہ کو طاقت دے دی جائے۔

ایک مکالمہ خواتین کے حقوق کی تحریکیں: صنفی امتیاز کے خاتمے کی اُمید ہیں؟ کے عنوان سے تھا جس میں خواتین کے مسائل کے لیے کام کرنے والی متنوع پس منظر کی حامل خواتین نے حصہ لیا۔ شاعرہ و ادیبہ کشور ناہید اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صنفی امتیاز کا خاتمہ ابھی ایک خواب ہے۔ انہوں نے پارلیمان میں موجود خواتین ارکان کے کردار پر بات کرتے ہوئے رائے دی کہ ایوان میں موجود خواتین عورتوں کے حقوق کے لیے بات نہیں کرتیں۔

سربراہ پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن رومانہ بشیر نے ملک میں عورتوں کے حقوق بارے پیش رفت کو قدرے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ مسائل اگرچہ بہت زیادہ ہیں تاہم خواتین اپنے طور پہ متحرک ہوئی ہیں۔

صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے پاکستان میں نظریاتی وابستگی سے ہٹ کر خواتین کے اپنے حقوق کے لیے مل کام کرنے کو سراہا اور کہا کہ ان کی مزاحمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اس امر کو حوصلہ افزا قرار دیا کہ پاکستان میں خواتین اپنی بچیوں کی زندگی اپنی زندگی سے بہتر بنانے کا عزم رکھتی ہیں، یہ تبدیلی کی طاقتور اُمید ہے۔

پاکستان میں آزادی اظہارِ رائے کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے سربراہ نیشنل پارٹی پاکستان میر حاصل خان بزنجو کا کہنا تھا کہ ریاست میں صرف ایک بیانیے کی آزادی ہے، جبکہ پاکستان کی پولیٹکل پارٹیز اور دانشور طبقے نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

صحافی و کالم نگار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر مزاحمت کا شعور موجود نہیں ہے۔ جبکہ پروگرام سپاٹ لائن کی میزبان منیزے جہانگیر نے رائے دی کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں آزادانہ تحقیقاتی صحافت ممکن ہو۔ ملک کے کئی صحافی چینلز چھوڑ کر سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر گئے لیکن وہاں بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

صحافی ودانشور خورشید ندیم نا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر آزادی رائے بطور سماجی قدر کے کمزور ہے۔ ہر وہ طبقہ جو ریاست سے اختلاف کرتا ہے اس کے لیے جگہ نہیں ہے۔

معروف صحافی مظہر عباس اور شہزادہ ذوالفقار نے ملک میں آزادی اظہار کے لیے مزاحمت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں کوئی کردار ادا نہیں کررہیں، جبکہ صحافی بھی خاموش ہیں۔

آخری مکالمہ اداروں کے مابین مکالمے کی ضرورت اور امکانات کے موضوع پر تھا جس میں دفاع، سیاست اور صحافت کے اہم نام شامل تھے۔ سابق چیئرمین نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس پاکستان جسٹس علی نواز چوہان نے ملک میں اداروں کے درمیان مفقود ہم آہنگی کے اسباب بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مکالمے کے امکانات اس لیے نہیں ہیں کہ اس کے لیے کسی طرح کی کوئی کوشش بروئے کار نہیں لائی جاتی۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل امجد شعیب نے حکومتوں کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں پارلیمنٹ کو وقعت نہیں دیتیں اور خارجہ پالیسی و معیشت کے اہم مسائل ایوان میں زیربحث نہیں آتے۔

سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اداروں کے درمیان مکالمہ نہ ہونے کا سبب عسکری اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہوئے کہا اسٹیبلشمنٹ اس کی ذمہ دار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید عباسی نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر تہمت لگانے کی ثقافت سے دور رہنا چاہیے تاہم پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔ انہوں نے ملک کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی یہ کہا کہ وہ بھی حکومت میں آکر پارلیمنٹ کو استعمال نہیں کرتیں۔ جبکہ اس بحث میں ڈاکٹر خالد مسعود کا اس حصہ لیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری پالیسی جنگوں کے مسائل کو بنیاد بنا کر بنائی جاتی ہے جو بنیادی غلطی ہے۔

سلیم صافی اداروں کے مابین جو صورتحال ہے اس میں مکالمے کا امکان کم ہے۔ انہوں نے عمرانی معاہدے کے غیرفعال ہونے کو بھی خطرناک قرار دیا۔ انہوں نے اس گھمبیر منظرنامے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی ججماعتوں دونوں ڈالی اور کہا کہ فریقین یکساں طور پہ مکالمے کے لیے سعی کرنی چاہیے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔