Get Alerts

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟
16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے لئے براہ راست ٹیلی وژن انٹرویو کے امکان پر بات کر رہا تھا۔ شہباز شریف بھی کمرے میں موجود تھے۔ دونوں بھائی حال ہی میں فوجی آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں سعودی عرب میں جلاوطنی کے خاتمے کے بعد برطانیہ پہنچے تھے۔

بات چیت انٹرویو کے ان سوالات کے گرد گھوم رہی تھی جو میں نے تیار کیے تھے اور ہمارا رابطہ کروانے والے ایک شخص کے ذریعے سے میاں نواز شریف کو اس شرط پر فراہم کیے گئے تھے کہ دوران انٹرویو ان کے جوابات سے پھوٹنے والے فی البدیہہ سوالوں کے جواب دینے کے بھی وہ پابند ہوں گے۔ گفتگو کے دوران نواز شریف نے کہا کہ ان کے کچھ جوابات ایک نووارد (چار سالہ) نیوز چینل کے لئے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں جسے فوجی حکومت پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس بارے میں کہنے کے لئے بہت کچھ ہے کہ کیسے فوج اور جرنیل پاکستان میں سویلین حکومتوں کو پٹڑی سے اتارتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ چینل کے بجائے خود آپ کو ہی اس خطرے سے نمٹنا پڑے گا۔

شہباز شریف نے اس لمحے مداخلت کی اور اپنے بڑے بھائی کو مجوزہ انٹرویو کے دوران 'فوج' کا لفظ استعمال کرنے سے خبردار کیا۔ 'پھر میں کیا کہوں؟' انہوں نے پوچھا۔ شہباز شریف نے تجویز دی کہ آپ اس کے بجائے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ طالع آزما جرنیل آئے روز ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف کو بھائی شہباز شریف کی تجویز اور مداخلت قطعاً پسند نہیں آئی تھی۔ 'ان طالع آزما جرنیلوں کے پیچھے ان کا ادارہ نہیں تو اور کون ہے؟' نواز شریف نے شہباز شریف سے سوال کیا۔ اس کے بعد نواز شریف نے چھوٹے بھائی کو ہائیڈ پارک میں جا کر سیر کرنے کا مشورہ دیا۔ 'جاؤ تازہ ہوا کھا کر آؤ۔'

نواز شریف بھلے ہی ایک ڈکٹیٹر کی نرسری میں پھلے پھولے ہوں لیکن مصیبتیں جھیل جھیل کر وہ اچھی طرح سیاسی سبق سیکھ چکے ہیں۔ اگرچہ جب وہ سیاست میں آئے تو ہو سکتا ہے وہ دل سے ڈیموکریٹ نہ ہوں لیکن سویلین بالادستی پر زور دینے کی ان کی کوششوں کی وجہ سے انہیں تین مرتبہ حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ایک ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل نے ایک بار مجھے بتایا کہ نواز شریف کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنے کے لئے کافی مواقع دیے گئے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے طاقتوروں کے ساتھ سینگ پھنسانے کا راستہ منتخب کیا۔ اس طرزعمل کی انہیں اچھی خاصی قیمت بھی چکانی پڑی۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران 'سرپرست' اور 'ماتحت' کے مابین تعلقات خراب ہو گئے تھے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ 1997 میں تاریخی انتخابی کامیابی میں 'ادارے' کی جانب سے انہیں برائے نام ہی حمایت ملی ہو گی۔ مہینوں ہی میں معاملات بگاڑ کا شکار ہو گئے تھے جب نواز شریف نے پہلے جنرل جہانگیر کرامت کو رخصت ہونے پہ مجبور کیا اور پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ نواز شریف کی دوسری مرتبہ برطرفی سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے جب کہ بغاوت ابھی ابتدائی شکل اختیار کرنا شروع ہوئی تھی، مرحوم جنرل حمید گل نے ایک جملے میں مجھے بتایا تھا؛ 'اسے کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ دوپہر کے کھانے میں ایک فوجی جرنیل کھائے اور رات کے کھانے میں دوسرا۔'

نواز شریف کی سعودی عرب جلاوطنی، 2006 میں جلاوطنی کا خاتمہ، 2007 میں پاکستان واپس آنے کی کوشش، دوسری بار ملک سے بے دخلی، حتمی واپسی، 2013 کے عام انتخابات میں کامیابی، عمران خان اور طاہرالقادری کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ، پانامہ اور اقامہ کا ہنگامہ، سسیلین مافیا والا تھئیٹر، ان کی سیاست سے تاحیات نااہلی، اور 2019 میں علاج کے لئے لندن روانگی؛ بہت سی داستانیں ہیں اور کم از کم ایک نسل تک سنائی جاتی رہیں گی۔

تاہم 2023 میں مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف دونوں کے سیاسی مستقبل انتہائی دلچسپ موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ چاروں اطراف سے ایک بڑا طوفان برپا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کو عمران مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر ایک لنگڑی مخلوط حکومت کی سربراہی دینے پر راضی ہو گئی ہو لیکن کیا نواز شریف کو چوتھی مدت کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل جائے گی؟ اس بات کے امکان بہت تھوڑے ہیں۔

ایک تو نواز شریف کو عدالتوں میں مقدموں کا سامنا کر کے گلوخلاصی کرانی ہو گی۔ کیا فیصلہ کرنے والے اپنے ماضی میں لیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کریں گے؟ اس کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے پائے گا۔

مسلم لیگ ن میں تھکاوٹ کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے پارٹی کسی جنگی محاذ پہ برسرپیکار ہے۔ دسمبر 2000 میں جب شریف برادران کو جلاوطن کر دیا گیا تھا تو پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ نواز شریف کی پاکستان سے طویل غیر موجودگی ان کے قریبی ساتھیوں کی قوت ارادی اور صلاحیت کو امتحان میں ڈال رہی ہے جو شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے میں تناؤ محسوس کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کو اب بے اختیار وزیر اعظم کہہ کہہ کر مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن کے صف اول کے ایک رہنما نے مجھے بتایا کہ 'شہباز شریف کے معاملے میں پی ایم (پرائم منسٹر) کا مطلب ہے پروجیکٹ مینجر۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر نواز شریف مزید چند ماہ تک بیرون ملک ہی رکے رہے تو پارٹی کا صفایا ہو سکتا ہے۔

نواز شریف اب مریم نواز کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔ مریم نواز پارٹی میں اعلیٰ عہدیدار ہیں اور جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور چند سابق ججوں پر مسلم لیگ ن کے خلاف سازش تیار کرنے کے نواز شریف والے بیانیے کو پھر سے زندہ کر سکتی ہیں۔ لیکن اب پاکستان کے عوام شریفوں سے ایسا کچھ نہیں چاہتے۔ معیشت کے محاذ پر قابل ذکر کارکردگی کے لئے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ الزام تراشیوں کی سیاست چند دکھی دل لوگوں کو کیتھارسس فراہم کر سکتی ہیں لیکن وہ بھوکے شکموں کی آگ نہیں بجھا سکتی اور نہ ہی بغیر ایندھن کے چولھوں کو روشن کر سکتی ہے۔ شریفوں کو کاروبار اور تجارت کے لئے بہترین ممکنہ ٹیم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اب وہ ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اگرچہ بہت سے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہنگامہ خیز لہروں میں گھرے خطرناک سفر پر روانہ ملک کی جانب پنڈی والے کس قسم کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ نواز شریف کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا موجودہ حکومتی اتحاد کے اندر سے کرنا پڑے گا۔ شہباز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ہی غالباً نواز شریف کو بیرون ملک پھنسے رہتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف اس وقت وزارت عظمیٰ کا مزہ لے رہے ہیں اور آصف زرداری بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے الیکٹ ایبلز کو پیپلز پارٹی میں شامل کر رہے ہیں۔

2023 کے اواخر میں ملک میں دو نئی طاقتور قوتیں ابھریں گی؛ پاکستان میں نئے چیف جسٹس آ چکے ہوں گے اور حال ہی میں تعینات ہونے والے آرمی چیف اہم عہدوں پر نئی تقرریاں عمل میں لائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کو ان دونوں میں سے کسی سے بھی بے جا حمایت کی توقع رکھ کر خود کو بیوقوف بنائے رکھنے سے باز رہنا ہوگا۔ اسے اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

جارحانہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے جنگجو پراپیگنڈا وار کے ایک اور مرحلے کے لئے تیار ہوں گے۔ کیا مسلم لیگ ن ایک زبردست طوفان کا رخ موڑنے کی اہلیت رکھتی ہے؟




عامر غوری کا یہ مضمون دی نیوز میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عامر غوری جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی ہیں۔