مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا: سپریم کورٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کون لڑے گا کون نہیں،فیصلہ الیکشن کمیشن نے نہیں عوام نے کرناہے اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔عدالتی فیصلے پر عمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے   پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) امیدوار عمر اسلم کی کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن لڑنےکی اجازت دیدی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن لڑنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی مسترد کیئے جانے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کے دوران درخواستگزار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔

عمر اسلم این اے 87 خوشاب سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی 9 مئی کے مقدمات میں مفرور ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے گئےتھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن لڑنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ مفرور شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ کسی کو مفرور ہونے کی بنیاد پر الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔  انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ بغیر قانون کسی کو بنیادی حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کون لڑے گا کون نہیں،فیصلہ الیکشن کمیشن نے نہیں عوام نے کرناہے اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ احتساب عوام نے کرنا ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون اشتہاری ہے اس بات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا یا عدالتیں؟ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن ملک کے عوام کو جوابدہ ہے یا امیدواروں کو؟ الیکشن کمیشن نے پاکستان کے عوام کو جواب دینا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ عمر اسلم سکروٹنی کے وقت بھی موجود نہیں تھے۔ بیلٹ پیپرز کاکام بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اب تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بیلٹ پیپر چھپنا شروع ہوگئے تو کیا امیدواروں کو بنیادی حق سے محروم کر دیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چھپائی سے قبل آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کیس عدالتوں میں آئیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

بعدازاں، عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے عمر اسلم کی اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں الیکشن 2024 لڑنے کی اجازت دے دی۔

علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سابق ممبر قومی اسمبلی اور این اے 49 اٹک سے پی ٹی آئی کے امیدوار میجر (ر ) طاہر صادق کو بھی انتجابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔

طاہر صادق نے این اے 49 اٹک سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جو کہ الیکشن ٹریبونل کے بعد لاہور ہائیکورٹ سے بھی مسترد ہو گئے تھے۔