جسٹس بندیال کا دور، ایک فرضی عدالت، اور حقیقی چیف کے دیے سبق کی گونج

جسٹس بندیال کا دور، ایک فرضی عدالت، اور حقیقی چیف کے دیے سبق کی گونج
ہمارے چیف جسٹس اپنے دور اقتدار کے اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ وقت گزاری کے لئے بڑھتی آبادی پر کانفرنسیں کروا رہے ہیں۔ ان سے قبل جسٹس ثاقب نثار نے مشہور ویک اینڈ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں انتظامیہ کے حیران پریشان ارکان بیٹھے ان کے ہر لفظ سے اتفاق کرنے پر مجبور تھے۔

فرق یہ ہے کہ جسٹس ثاقب نثار نے آبادی پر توجہ تب دینا شروع کی جب وہ اپنے باقی تمام کام نمٹا چکے تھے۔ وہ اس وقت تک ایک وزیر اعظم کو نااہل کرنے کی ساری کارروائی کی نگرانی کر چکے تھے، ایک ایسے بنچ کی سربراہی کر چکے تھے جس نے طے کیا کہ یہ نااہلی تاحیات ہو گی، اور ایک ایسے انتخابی عمل کی خود نگرانی کر چکے تھے جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا انتخابی نتائج مرتب کرنے والا نظام خراب ہو گیا اور مطلوبہ نتائج دینے والا حقیقی نظام کامیاب ہو گیا۔

وہ واحد چیز جس میں جسٹس ثاقب نثار واقعی ناکام ثابت ہوئے وہ تھا انصاف کی فراہمی اور عوام سے پیسے اکٹھے کر کے ڈیم بنانے کا معاملہ۔ بعد میں انہوں نے ڈیم نہ بننے کی ذمہ داری اوروں پر ڈال دی اور دوسرا مقصد ویسے ہی نصاب سے باہر تھا۔

یہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال جس وقت اس پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں، ان کے پاس اپنے دور میں دکھانے کو شرمندگی کے سوا شاید ہی کچھ ہو۔ ڈھونڈے سے بھی ان کے دور میں دکھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ تاہم، اپنے آخری ہفتوں میں وہ کچھ لکھ سکتے ہیں کیونکہ اب تک تو تقریباً ہر بڑا سیاسی معاملہ جو ان کی عدالت میں لایا گیا، اس پر تحریری فیصلہ آنا باقی ہے۔

جب ثاقب نثار نے اس قسم کی کانفرنس کی میزبانی کی تھی تو ان کے پاس اتنی طاقت تھی کہ مبصرین میں سے کسی نے بھی اس پر تنقید کی بھی تو کہیں شائع نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس بندیال کے معاملے میں اگر وکلا اور تجزیہ کار تبصرہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں تو محض ترس کھا کر۔

اپنے اچھے دنوں میں جسٹس بندیال کی عدالت انتخابات کے راستے میں آنے والے ہر شخص پر توہین عدالت لگانے کی دھمکی دیا کرتی تھی، جب کہ توہین عدالت کرنے والے بعض لوگوں کو یہ فر ض کرتے ہوئے معاف کر دیا کرتی تھی کہ ممکن ہے انہیں عدالتی احکامات موصول ہی نہ ہوئے ہوں۔ یہ چھوٹ عمران خان کے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دینے کے بعد دکھائی گئی جس میں اپنے وکیلوں کی جانب سے عدالت کو ایک روز قبل کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ ریڈ زون میں داخل ہو گئے تھے۔ جب عدالت کو جناح ایونیو پر درختوں کو لگائی گئی آگ کے مناظر دکھائے گئے تو اس نے رائے دی کہ ممکن ہے درختوں کو آگ آنسو گیس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے لگائی گئی ہو۔

آج کل عدالت اپنی حکم عدولی پر توہین عدالت کا ذکر کرنے کی زحمت نہیں کرتی کیونکہ اب اس کی توہین ہونا معمول بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب قانون جوان تھا، جب وزرائے اعلیٰ کو اس وقت تک کوئی بامعنی فیصلہ لینے سے منع کر دیا کرتا تھا جب تک کہ عدالت آئین کی تشریح کے نام پر کوئی ایسی ترمیم نہ کر لے جس سے پی ٹی آئی کی مخالفین پر برتری ممکن ہو سکے اور پھر وہ اسمبلیاں تحلیل کر دے۔ ایسے فیصلے بھی سنائے گئے جن میں ہمیں بتایا گیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، انتخابات ہو کے رہیں گے۔ اور یہ بھی کہ عدالت ایسے سرکاری ملازمین ڈھونڈ لے گی جو اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے لئے فنڈز کا بندوبست کریں گے۔

اب ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق سنائے گئے ایک بھی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا اور بجائے اس کے کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی دھمکی دیتی، ہمارے چیف جسٹس ہمیں یہ یاد کروانے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں کہ ان کے پاس بہرحال محض اخلاقی اتھارٹی ہی تو ہے۔ یہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب آنے والے چیف جسٹس نے کم از کم ایک درجن عوامی خطوط میں لکھ لکھ کر انہیں یاد دلایا ہے کہ چیف جسٹس صاحب بنچز کی تشکیل میں اخلاقی تقاضے پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے بھی ایسا اپنی سیاست کا کھلے عام اظہار کر کے کیا ہے۔

ہماری عدالتیں بنائی ہی اس طرز پر گئی ہیں کہ عدالتیں اپنی عظمت اور برتری کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں اور یہ برتری جج کی جانب سے کیے گئے انصاف کی ساکھ سے پھوٹتی ہے۔ وہ ارفع ہے۔ وہ الگ تھلگ ہے۔ اس کی اطاعت ضروری ہے۔ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحبان بھی اسی بزرگی و بڑائی پر انحصار کرتے رہے ہیں، تب بھی جب ان کے پاس اس کے علاوہ دکھانے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا۔ افتخار محمد چودھری اور ثاقب نثار اپنے عدالتی لباس میں گرجتے اور بنچوں سے برستے رہے۔ اپنی شان میں کمی آتی محسوس ہوتی تو لوگوں کو توہین عدالت کی کارروائی کی دھمکیاں دیتے۔ مگر ڈیزائن جتنا بھی عظیم الشان ہو اس کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ اس کی شان و شوکت محض گرج چمک دکھانے اور اس کے بعد پیچھے ہٹنے کی بنیاد پر برقرار نہیں رہ سکتی جیسا کہ ہم نے بندیال کورٹ میں دیکھا۔

گذشتہ ہفتے ہمارے آرمی چیف ایک زرعی پالیسی سربراہی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جہاں وزیر اعظم بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم موصوف کی تعریفیں کرتے رہے اور ان کے بغیر سٹیج پر جانے تک سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے تمام مہمانوں کے سامنے نئے دور کی کاشت کاری کے اقدام کے بارے میں ایک حیرت انگیز اعلان فرمایا جو شاید پاکستانی سیاست کو اچھی طرح نہ سمجھنے والوں کوٹائپنگ کی کوئی غلطی لگتا کیونکہ اعلان یہ تھا کہ یہ بہت بڑی زرعی سکیم وزارت زراعت یا پلاننگ کمیشن نے نہیں شروع کی تھی بلکہ یہ دراصل فوجی فاؤنڈیشن کا ایک منصوبہ تھا۔

صاحبانِ علم ان نو آموزوں کی تصحیح کرتے۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ اصل چیف نے اس اجتماع میں ایک شان دار تقریر کی جس میں قرآن مجید سے عربی زبان میں فی البدیہ حوالے بھی موجود تھے جنہیں سامعین کی سہولت کے لئے انہوں نے اردو میں ترجمہ کر کے بھی سنایا۔ انہوں نے ملکی معیشت پر بات کی اور ایسے اعداد و شمار پیش کیے جن کی مدد سے ان خدشات کو جھٹلایا گیا کہ ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

حقیقی چیف صاحب سے متعلق رپورٹ کیا گیا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں دو ہی راستے ہوتے ہیں؛ مشکل وقت میں 'صبر' کا مظاہرہ کرے اور آزمائشوں کا مقابلہ کرے اور خوش حالی کے وقت میں خدا کی رحمت کے لئے 'شکرگزار' ہوتے ہوئے بردباری کا مظاہرہ کرے۔

زمانہ طالب علمی میں اپنی یونیورسٹی میں ہم فرضی عدالت لگایا کرتے تھے۔ سب وکیلوں والا لباس پہن کر کھڑے ہو جاتے اور اپنے اپنے کاز کو حق پر ثابت کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرتے۔ ہم میں سے بعض طلبہ ججز بن جاتے اور یونیورسٹی کی میوزک، آرٹس اینڈ ڈرامہ سوسائٹی سے وگ لے کر پہن لیتے۔ کتابی علم سے زیادہ شغف رکھنے والے ساتھی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پر بھی گہری توجہ دیتے اور پورے عمل کو نہایت سنجیدگی سے لیتے۔ مگر اس ساری مشق کا حقیقی زندگی سے ایک بنیادی فرق ہوتا تھا؛ ہم جو بھی فیصلہ کر لیں، حقیقت میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے فیصلوں پر کوئی کان نہیں دھرتا تھا اور ہم توقع بھی یہی رکھتے تھے۔ ہم نے فرضی طور پر کسی معاملے کے حق میں یا اس کی مخالفت میں جو بھی مؤقف اپنایا اگرچہ وہ خاصا حقیقی لگتا تھا مگر محض فرضی مفادات کی نمائندگی کرتا تھا۔

چیف جسٹس بندیال نے ہماری سپریم کورٹ کا بھی یہی حال کر دیا ہے۔

اصل چیف صاحب نے ہم سب کو جو سبق زراعت پر کانفرنس کے دوران دیا، چیف جسٹس بندیال کو یہ بہت پہلے سیکھ لینا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس چیف جسٹس بندیال نے اچھے دنوں میں 'صبر' کا مظاہرہ کیا اور اب وہ 'شکر' کرنا سیکھ رہے ہیں جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اور ہمارے پاس ایک ایسی سپریم کورٹ بچی ہے جس کی بات پر حکومت کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اس سے بھی بری بات اس احساس کا مسلسل بڑھتے جانا ہے کہ عدالت بھی حکومت سے اپنی بات پر کان دھرنے کی توقع نہیں رکھتی۔

اس سے جو سبق ملتا ہے وہ نہایت سادہ ہے اور مستقبل کے تمام چیف جسٹسز پر لاگو ہوتا ہے؛ انصاف کو کمزور کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کریں۔ اور اسے بے دھڑک ہو کر اور کسی بھی مفاد سے بالاتر ہو کر استعمال کریں، جتنا چاہیں استعمال کریں۔ نہ ضرورت سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ لیکن اگر آپ طاقتوروں میں سے بعض کرداروں کو ترجیحی بنیادوں پر تحفظ دینے کے لئے انصاف کی ڈھال کو استعمال کریں گے تو پھر آپ کو صبر اور شکر کے اسباق یاد کروائے جائیں گے۔ یہ اسباق آپ کو آپ کی مدت ملازمت کے بالکل آخر میں بھی پڑھائے جائیں تو بھی حقیقی چیف کے پڑھائے گئے اسباق کی گونج آپ کے بعد بھی سنی جاتی رہے گی۔ اس وقت جو آنسو نکلیں گے ان کا سبب آنسو گیس نہیں ہو گی اور جو کچھ بھی جل رہا ہوگا، اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔




یہ مضمون عبدالمعز جعفری نے The Friday Times کے لئے لکھا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔