ریاست مدینہ (لفظی)کے خلیفئہ وقت (خیالی) فرماتے ہیں کہ عورتیں جب غیر مناسب لباس پہنتی ہیں تو مرد اپنے جزبات پر قابو نہیں رکھ پاتے جس کی وجہ سے ذیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے اس بیان سے تھوڑا سا متفق بھی ہوں اور بہت ذیادہ افسردہ بھی ہوا کہ ایک حاکمِ وقت اس قدر فرسودہ سوچ کا مالک ہے جو مجرمان کو سخت سے سخت سزا دینے کی بجائے متاثرین کو ہی معرضِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ ذیادتی واقعات کو صرف لباس سے جوڑنا ذہنی فرسودگی کا عکس ہے۔ اب ان صاحب کو کون بتاۓ کہ جو مرد حضرات اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں وہ دراصل "روبوٹ" نہیں ہیں بلکہ حلالی باپ کی اور باحیا ماں کے تربیت یافتہ غیرت مند مرد ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی عورت کو غلیظ نظر سے دیکھنے لگتے ہیں تو انکو اپنے گھر میں بیٹھی مائیں بہنیں بھی یاد آجاتی ہیں۔
وزیراعظم صاحب سے پوچھنا چاہئیے کہ جنابِ عالی! آپ کے ملک کی ہر مشہور دیوار پر تو مردانہ کمزوری کے اشتہار چھپے ہوئے ہیں اور کیسے ممکن ہے کہ مردوں سے انکی شہوت پر قابو نہیں پایا جاتا؟ سات دنوں، سات مہنوں اور سات سالوں کے بچوں کے لباس بھی انکی شہوتوں کو بے قابوکردیتے ہیں؟ اگر عورتوں کے لباس دیکھ کر ان نامردوں کے جذبات قابو سے نکل جاتے ہیں تو کفن پہنی خواتین کو قبروں سے نکال کر جنسی درندگی کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ اب کفن سے ذیادہ باپردہ لباس تو نہیں ہو سکتا؟ مگر ان سے تو قوم لوط بھی پناہ مانگتی ہے کہ ان میں صرف عورتیں نہیں بلکہ مرد اور بچے بھی نہیں محفوظ۔ صرف ایک پچھلے ہفتے کی بات کریں تو ایک اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں کھانے کی ڈلیوری دینے آنے والے لڑکے کو ہاسٹل میں اجتماعی ذیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا اور مدرسہ کے بچے کو اسکا اپنا استاد، صرف استاد نہیں مفتی صاحب زنا بلجبر کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جس معاشرے میں حوس اور درندگی کا یہ عالم ہو وہاں مسئلہ لباس کا نہیں ہوسکتا وہاں مسئلہ ان فرسودہ ذہنیت کا ہے جس کی پروان آپ چڑھا رہے ہیں۔
قاتل کی یہ دلیل بھی منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
اگر صرف پردے کا ذیادتی واقعات سے موازنہ کیا جائے تو مظلوموں کے ساتھ ذیادتی نہیں بلکہ ظلم ہے۔ اعلٰی عہدوں پر بیٹھے صاحب اقتدار جب بجائے ظالم سے اسکے ظلم کا حساب لینے کہ مظلوموں سے انکے لباس اور اکیلے سفر کرنے کی وجوہات پوچھنے لگ جائیں تو ہوگیا انصاف بھی۔ جس ریاستِ مدینہ کا نعرہ آپ لگاتے ہیں وہاں تو ظالم سے سوال ہوتا تھا مظلوم سے نہیں مگر یہ کس قسم کی ریاستِ مدینہ ہے جو انصاف یا تحفظ دینے میں ناکام رہ جائے تو مظلوم کی جھولی میں ہی الزامات پھنک دیتے ہیں۔ ایک نجی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز تقریباً 10 ریپ کیسز درج ہورہے ہیں، اس غلیظ ترین فعل کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں 22ہزار کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جنکی اکثریت پنجاب سے ہے۔ جبکہ صرف اور صرف 77 ملزمان کو گرفتار کر کہ سزا دلوائی گئی ہے۔ جبکہ 4-5ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق اندراج مقدمات اور سے آدھے سے ذیادہ کیسسز بدنامی اور معاشرتی پریشر کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتےگرفتار ملزمان کی تعداد دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملزمان کس قدر آزادی سے ناموسوں کو داغ دار کر کہ آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ ہے کئی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ کہ جب مجرم کو اسکے کئے گئے گٹھیا ترین جرم کی سزا ہی نہیں ملے گی تو اور لوگوں میں بھی اس جرم کی طرف رغبت بڑھے گی۔
اگر واقعی ریاست ان واقعات کو قابو کرنا چاہتی ہے تو سخت سے سخت قوانین بنا کر اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔ کیونکہ دیر سے ہونے والا انصاف بھی ناانصافی کے مترادف ہوجاتا ہے۔