دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔۔۔

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔۔۔
کبھی نہیں بلکہ اکثر یہ دل چاہتا ہے کہ حال کی چلمن کو پرے دھکیل کر ذرا دیکھیں تو صحیح ماضی کے کون کون سے کھیل تماشے اور تفریحات کو ہم بھولتے جا رہے ہیں، کون کون سی باتیں اور کون کون سے انداز ہمارے ذہنوں کو کھنگالنے کے باوجود نہیں ملتے۔ تو جناب بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ اس مشینی دور میں نجانے کتنی چیزیں اور کتنے کھیل تماشے ایسے ہماری زندگیوں سے نکال باہر کر دیے گئے کہ جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہ ساری تفریحات بچپن سے ہمارے ساتھ رشتہ بنائے ہوئی تھیں، اب ہمارے بچوں کو معلوم بھی نہیں۔ تو پھر دل واقعی ڈھونڈتا ہے فرصت کے اُن رات و دن کو، جب کرنے کو اور دیکھنے کو بہت کچھ تھا، جیسے کسی بوڑھے درخت کے سائے تلے بزرگوں کی بیٹھک کو، جہاں لفظوں کی بازی گری ہوتی۔ جہاں خیالات کا بے ہنگم طوفان برپا ہوتا ہے۔ کبھی ان کے پاس سے گزرتے تو قریب ہی ننھا منا سا سیل سے چلنے والا ریڈیو نظر آتا، جس پر نشر ہونے والی کسی خبر پر وہ تجزیے سننے کو ملتے جو ہمارے ٹی وی کے ٹاک شوز میں نظر ہی نہیں آتے۔ ہر کوئی اپنے تجربے اور مشاہدات کے ساتھ ماہرانہ رائے دینے میں دیر نہ لگا رہا ہوتا۔

کبھی محلے میں بندر کا تماشا دکھانے والا مداری آتا تو بچے چاروں طرف سے اسے گھیر لیتے، مداری، معصوم اور بے زبان بندر اور بکری سے وہ وہ اداکاری کراتا کہ آسکر دینے کو دل چاہے۔ تماشے والا جب کہتا کہ بابو، بن ٹھن کر سسرا ل کیسے جاتا ہے تو بندر کے انداز کو دیکھ کر لگتا جیسے اس کا اس معاملے میں گہرا مشاہدہ رہا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ جب ہم خود سسرال کی پیشیاں بھگتنے کے مجرم ٹھہرے تو ذہن کے گوشوں میں مداری کا مکالمہ ہی گونج رہا ہوتا کہ ’بابو، بن ٹھن کر سسرال کیسے جاتا ہے۔‘

اسی طرح پرانے اور خستہ حال ٹھیلے پر میلے کچلے شیشوں کے جار میں رنگ برنگی ننھی منی مچھلیاں فروخت کرنے جب کوئی آتا تواس کے ارد گرد میلہ سا لگ جاتا۔ یہ بات سوچ کر ہی اب متلی آ جاتی ہے کہ گندے ہاتھوں سے ٹھیلے والا مچھلی نکال کر کسی بچے کو تھیلی میں دیتا اور انہی ہاتھوں سے چورن ایک کاغذ پر لپیٹ کر بھی۔

ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب ایک بار سات دن تک سائیکل چلانے کا کرتب دکھانے ایک جانباز آیا تو بڑے سے میدان میں پنڈال لگایا گیا۔ موسم کی سختی نرمی سہتے ہوئے یہ سوار مسلسل سائیکل چلاتا رہا۔ ایک دن ہمارے اندر ’شرلاک ہومز‘ کی روح جاگی اور یار دوستوں کو جمع کر کے رات کے ایک پہر یہ جاسوسی کرنے پہنچے کہ وہ واقعی سائیکل چلا رہا ہے یا مزے سے سو رہا ہے تو ہمارے منہ پر اُس وقت خود بارہ بج گئے جب اس سوار کو ہم نے سائیکل ہی چلاتے ہوئے دیکھا۔ دل باغ باغ ہو گیا کہ چلو کوئی تو اپنا کام ایمان داری سے کر رہا ہے۔

یہ بھی عجیب ہی تھا کہ اس زمانے میں ہر موسم کے کھیل مخصوص تھے، اگر کرکٹ کا سیزن چل رہا ہوتا تو ہر کوئی اس میں ڈوبا ہوتا، تو کبھی ہاکی میں پاکستانی ٹیم فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی ہوتی تو پتلی پتلی ٹانگوں کے ساتھ اس کھیل سے لطف اندوز ہوا جاتا۔ فٹ بال کا عالمی کپ ہوتا تو ہر گلی محلے میں کہیں نہ کہیں میراڈونا، پھر ڈیوڈ بیکہم تو مل ہی جاتا۔ یخ بستہ راتوں میں بیڈمنٹن سے لطف اٹھانا بھی جاڑے کا تقاضہ تھا، ایسے میں مونگ پھلی والا آ جاتا تو چند روپوں کی مونگ پھلی میں پوری ٹیم ہاتھ صاف کرتی، اب تو چند روپوں میں گنتی کی مونگ پھلی ملتی ہے اور بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خود ہی کھائے کسی اور کو نہ کھلائے۔



سستے کھیل پٹو باری یا گلی ڈنڈا بھی ہر ایک کی جان ہوتا۔ اُن دنوں بجلی جانا ہمارے جیسے بچوں کے لئے خوشی کی خبر لاتا، جبھی چھپن چھپائی کا مزا اٹھایا جاتا۔ خیر اب تو زندگی ہم سے پہل دوج کھیل رہی ہے ورنہ ایک زمانے میں یہ بھی بچوں کا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ جشن آزادی کا موسم آتا تو ’لئی‘ لے کر جھنڈیاں لگائی جاتیں۔ گھر سج جاتا تو یار دوست اکٹھے ہو کر گلیوں کو سجاتے اور پھر یہ مقابلہ ہوتا کہ بتاؤ کون بازی لے گیا، اور اب ’بازی‘ لے جانے کی فکر میں ایک عجیب سا ’سماں‘ ہے۔

رمضان آتا تو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد کرکٹ یا پھر لڈو کی بساط بچھائی جاتی۔ اب تو لڈو ہو یا کیرم، سب ہی ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔ کوسوں دور بیٹھے یار دوستوں سے آن لائن کھیل کر ہی وقت کاٹا جاتا ہے۔ حد تو یہ تھی کہ جاڑے میں چوزے تک پال لیے جاتے تھے۔ جوتے کے خالی ڈبے کو بلب لگا کر ننھے منے پیارے پیارے نیلے پیلے چوزوں کی کابک بنائی جاتی۔ جوں جوں سردیاں عروج پر پہنچتیں تو ان چوزوں کی تعداد بھی دھیرے دھیرے کم ہونے لگتی کیونکہ یا تو ان میں سے کئی کو بلی کھا جاتی یا پھر سردی۔



ہم تو اپنا شمار ان خوش نصیبوں میں بھی کرتے ہیں جنہیں بچپن سے ہی کفایت شعاری اور رقم اکٹھی کرنے کا سلیقہ ملا۔ اس مقصد کو پانے کے لئے مٹی کا بنا ’گلک‘ ہوتا، جس میں بچی ہوئی چونی اٹھنی ڈال دیتے اور جب پیسوں کی ضرورت ہوتی تو اسی گلک کو زمین بوس کر کے بڑے شوق و ذوق سے یہ گنتے کہ ہمارا خزانہ ہوا کتنے کا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ہر خاص و عام کے لئے صرف بن کباب ہوتا تھا لیکن یہ فاسٹ فوڈ بھی برگر بن کر امیر اور غریب کا فرق بیان کر رہا ہوتا ہے۔

کیا ہم بھول سکتے ہیں جب سبزی خریدنے جاتے تو دکاندار بنا بولے مٹھی بھر کر ہری مرچ یا ہرا دھنیا، پودینہ تھما دیتا۔ اب تو ان چیزوں کے بھی الگ سے دام چکانے پڑتے ہیں۔ دن بھر کھیل کود کے بعد بھی وقت تو جیسے آگے بڑھتا ہی نہیں تھا، آج یہ عالم ہے کہ وقت پر لگا کر اڑنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ وقت کا پہیہ تو سائیکل چلاتے وقت بھی تھما رہتا تھا۔

سارا دن کی بھاگ ڈور کے بعد شام میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جانا بھی ایک الگ قسم کی عیاشی تھی، جب ٹی وی بصری تاثرات میں کوتاہی دکھاتا تو بھیا کے حکم پر اُس چھت پر چڑھ جاتے، جہاں شام میں کبھی کبھار پتنگ بھی اڑاتے۔ انٹینے کو ایسے ہلاتے جیسے ہم ’ناسا‘ سے ہی آئے ہیں۔ کھیل تماشوں کے لئے کسی زمانے میں کھلے سے میدان میں سرکس لگتا تھا، اب یہ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ اب سر جوڑ کر کوئی چور سپاہی بھی نہیں کھیلتا، جس میں کوئی ایک یہ صدا لگاتا تھا کہ میرا وزیر کون؟ تو وزیر صاحب کے ذمے چور سپاہی کا پتا لگانے کا کام دیا جاتا، خیر اب تو حقیقی دنیا میں وزیر ہو یا مشیر سبھی بغیر کسی پولیس کی مدد سے چور کا پتہ لگانے پر مامور ہیں۔



کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے وہ ٹیپ ریکارڈ جس پر والد صاحب کی غیر موجودگی میں گانے سنتے تھے۔ یاد تو ہمیں یہ بھی ہے کہ اپنی پسند کے گانے ریکارڈ کیسے کرائے جاتے تھے۔ باقاعدہ لسٹ بنا کر دی جاتی کہ اے اور بی سائیڈ پر کون کون سے گانے آنے چاہئیں۔ ٹیپ ریکارڈ کی جگہ پہلے واک مین آیا پھر آئی پوڈ نے ان دونوں کو پیچھے کھسکا کر اپنی جگہ بنائی اور جناب اب یہ بھی نایاب ہو گیا۔ اب تو ننھی منی سی ’یو ایس بی‘ میں سینکڑوں گانے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ جنہیں سن سن کر گاڑی میں رومان پرور ماحول خود بخود طاری ہو جاتا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے کمپیوٹر میں محفوظ مواد کو فلاپی اور پھر سی ڈی میں منتقل کیا جاتا، اب یہ بھی کام ننھی منی سی یو ایس بی کر رہی ہے۔

خوشی تو وی سی آر کی آمد پر بھی ہوئی۔ نئی فلم کا پہلا شو دیکھنے کے لئے دکاندار کی منت سماجت کی جاتی اور یہ بھاری رقم کے عوض کام ہو جاتا۔ ارے سب چھوڑیں کون بھول سکتا ہے کیمرا اور اس کی ریل کو، جس میں 33 یا 36 تصاویر ہوتیں اور پھر انہیں دھلوایا جاتا، کچھ سیانے پہلے نیگیٹوز بنواتے اور پھر کام کام کی تصویروں کا پرنٹ تاکہ رقم بچائی جائے۔ اب تو جناب سمارٹ فون کے ذریعے تصاویر ہی نہیں مووی کیمرے کا بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ تصاویر یا ویڈیو کو اپنی پسند کے مطابق خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی بے شمار اپلی کیشز دستیاب ہیں۔

 



کلائیوں پر بندھی گھڑیاں وقت کے پابند ہونے کا اشارہ دیتیں لیکن یہ اب ذرا کم کم ہی اب اپنا دیدار کراتی ہیں۔ بھاری بھرکم الارم جب بجتا تو مردوں تک کو اٹھانے کی اہلیت رکھتا اور اب یہ سہولت بھی سمارٹ فون کے ذریعے مدھر اور جل ترنگ الارم سے پوری کی جا رہی ہے۔ ایک دوست کے ان خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ’سمارٹ فون‘ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح ہے۔ جس میں آپ کے مطلب کا سب کچھ آپ کی جیب میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

خیر جناب کس کس چیز کا تذکرہ کریں۔ ڈائل والا ٹیلی فون ہو، پوسٹ کارڈ، فیکس مشین، ٹائپ رائٹر، ٹیلی گرام سب کچھ اب تو بابا آدم کے زمانے کی چیزیں لگتے ہیں۔ ان کا اب نظارہ کریں تو لگتا ہے کس قدر دقیانوسی دور میں رہتے تھے۔ سچ مانیں تو پہلے ان سب چیزوں کے لئے وقت ہی وقت تھا۔ مگر اب گردن جھکا کر سیل فون پر ایسے لگتے ہیں کہ وقت کہاں اڑن چھو ہو گیا، کسی کو اس کا احساس ہی نہیں ہو پاتا۔