سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن پر لین دین کی آفر تھی لیکن ہم نے کوئی لین دین نہیں کیا تھا۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ ہماری پارٹی نے کیا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بحیثیت پارلیمانی لیڈر میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، مجھے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے پر پچھتاوا ہے۔ یہ کہنا ہے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا۔
سماء نیوز کے پروگرام میں سینئر صحافی سید طلعت حسین کے ساتھ گفتگو کے دوران خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن کے دوران مجھے علم ہو گیا تھا کہ ہارنے والوں میں میرا بھی نام ہے۔ میں نے الیکشن کا رزلٹ جنرل باجوہ کو بھیجا کیوںکہ وہی یہ سب کر رہے تھے۔ اس وقت کے سیکرٹری الیکشن کمیشن جو واردات کر رہے تھے وہ بھی میرے علم میں تھی۔ 2018 کے انتخابات جی ایچ کیو کی طرف سے 100 فیصد مینیج کیے گئے تھے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب نواز شریف کو ہٹانے کا اٹل فیصلہ ہو چکا تو مجھے تبھی پتہ چل گیا تھا۔ جنرل باجوہ ان دنوں نجی ملاقاتوں میں کہتے تھے کہ نواز شریف اور مریم نواز 10 سال کے لیے سیاست سے باہر ہیں۔ اس کے بعد شاہد خاقان عباسی کا ایک سال کا دور حکومت آیا۔ اس دوران مختلف تجاویز گردش کرتی رہیں کہ ایسے کر لو یا ویسے کر لو۔ ان میں سے کچھ تجاویز کا تو میں عینی شاہد بھی ہوں، یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔
طلعت حسین نے ان سے سوال کیا کہ جس جنرل باجوہ نے 2018 کے انتخابات کو مینیج کیا، اسی جنرل باجوہ کو آپ کی جماعت نے توسیع کیوں دے دی؟ اس پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے پر مجھے پچھتاوا ہے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر لین دین کی آفر ہوئی تھی لیکن ہم نے کوئی لین دین نہیں کیا تھا۔ پارٹی نے انہیں ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمارنی لیڈر کی حیثیت سے میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ آج جب میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بار غلطی نہیں کروں گا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے بتایا کہ ایک میٹنگ میں پارٹی کی سینئر قیادت کی موجودگی میں جنرل باجوہ کی توسیع کی منظوری ہوئی تھی اور یہ پیغام میں نے سب تک پہنچایا تھا تو میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں بہت زیادتیاں ہوئی ہیں اور ہماری سیاست دان برادری بھی ان زیادتی کرنے والوں میں شامل ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ میرے خلاف پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔
موجودہ ایئر چیف کی توسیع کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو خواجہ آصف نے بتایا کہ ابھی ملک کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم تقریباً حالت جنگ میں ہیں اور یہ توسیع اسی وجہ سے دی گئی ہے۔ انشاء اللہ جلد حالات بہتر ہو جائیں گے۔ تاہم جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے لیے جو بیانیہ بنایا گیا تھا وہ غلط تھا۔ خواجہ آصف کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہوں، ماضی میں میرے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب بھی رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ سے متعلق رانا ثناء اللہ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسحاق ڈار کے علاوہ سلطان الانہ اور محمد اورنگزیب کا نام بھی وزیر خزانہ کے لیے زیر غور تھا۔ محمد اورنگزیب کا نام ہم نے خود سلیکٹ کیا ہے۔ میں نے راولپنڈی کی مداخلت کے بغیر خود محمد اورنگزیب کو سپورٹ کیا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی سے متعلق خواجہ آصف نے کہا کہ محسن نقوی نے پنجاب میں زبردست کارکردگی دکھائی اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ وزیر داخلہ بنے ہیں۔ اپنے ڈیڑھ سال کے دور میں بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب 30 یا 32 بار انہوں نے میرے شہر کا دورہ کیا، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ ہسپتال ٹھیک سے کام کر رہے ہیں یا نہیں، سڑکیں صحیح بن رہی ہیں یا نہیں۔ محسن نقوی نے صرف سیالکوٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ باقی ضلعوں کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے نامکمل پروجیکٹ انہوں نے مکمل کروائے ہیں۔ ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے بہترین کام کیا۔ ان کو سینیٹر بنا کر وزیر داخلہ بنانے کی گنجائش تھی، اسی لیے دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا۔