اب تو کوئی پردہ نشین رہا نہ نقاب پوش، مگر پٹی ہماری آنکھوں پر باندھی گئی ہے اور زبان پر نہ کھلنے والے تالے لگے ہیں۔ جو کچھ آج کل اس میں ملک ہو رہا ہے یہ خود رو نہیں بلکہ عمیق سوچ بچار اور عرق ریزی سے کشیدہ، ترتیب وتشکیل کیا ہوا طویل المیعاد منصوبہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ریاستی اقتدار و اختیار عوام کے بجائے ایک طاقتور ادارے کے ہاتھوں میں ہو۔
آج بھی مقصد وہی ہے لیکن معروضی حالات کے مطابق سٹریٹیجی میں رد و بدل کر کے اقدام کرنے والے دستے کو عقب میں دفاع و استحکام کے لئے تعنیات کیا اور اسے پیشرفت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کھیل کے دو کردار مستقل اور بنیادی نوعیت کے ہیں، باقی کردار اور مہرے حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
مذکورہ منصوبے پر عملی کام 16 اکتوبر 1951 سے شروع ہوا جس دن ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا جو سات سال بعد مارشل لا کے صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔
اب تک جو ہو رہا ہے، یہ اس کا تسلسل ہے لیکن پیچیدہ شکل میں۔ اس لئے ہم اس کو دو تاریخی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں، یعنی اکتوبر 1958 سے اکتوبر 1999 تک اور 2007 سے اب تک۔
اکتوبر 1999 تک فوج سامنے آ کر ننگا مارشل لا لگاتی، کچھ عرصے بعد عدلیہ اس کو کپڑے پہناتی اور اس کی بنیاد پر فوج اپنی نگرانی میں اپنی مرضی کی آئینی اور سیاسی بندوبست تشکیل دیتی تھی۔
مگر نائن الیون کے نتیجے میں بدلتے ہوئے بین الاقوامی، ملکی سیاسی حالات اور اس کے معاشی مضمرات کی وجہ سے فوج کے لئے مستقبل میں مارشل لا کی شکل میں براہ راست سیاسی مداخلت مشکل ہوتی جا رہی تھی، جو سیاست اور اقتدار پر اس کی گرفت کمزور کر سکتی تھی، لہٰذا اس مشکل کے تدارک کے لئے نئی پیش بندی کا آغاز ہوا۔
یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ 2005 سے امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان خصوصاً فوج پر ڈبل گیم کا الزام لگانا شروع کیا اور اس کے کرداروں کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا۔
دوسری طرف جنرل مشرف کے اقتدار اور پالیسوں کے وجہ سے فوج کا امیج داغدار ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ابتر ہوتا جا رہا تھا۔ اسی اثنا میں رہی سہی کسر میثاق جمہوریت نے پوری کر دی۔ اس کے نتیجے میں ماضی کی دو بڑی متحارب سیاسی جماعتوں، یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایک نئے سیاسی سفر اور جدوجہد کا عہد کیا جس کا مقصد تھا کہ مستقبل میں ان میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنے گا اور ان کی سیاسی مداخلت کا راستہ روکے گا۔ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اس کا حمایت کی لیکن بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں بڑی جماعتوں نے چھوٹی چھوٹی سیاسی مصلحتوں کے وجہ سے اپنے عہد کا پاس نہیں رکھا۔ لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ نے خطرہ بھانپ لیا تھا اور اس خطرے کی پیش بندی میں مصروف تھی۔
سردست ان کو فوج اور پی سی او زدہ عدلیہ کا امیج بہتر کرنا تھا۔ 2006 سے دہشتگردی اور اس کے خلاف نام نہاد جنگ شہری علاقوں میں پھیلنے لگی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو فوج نے باقاعدہ اپنی جنگ قرار دیا اور اس کو امیج بلڈنگ کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال کرنا شروع کیا۔ سکیورٹی کی نام پر سیاسی قوتوں کی سیاسی سرگرمیاں محدود کی گئیں جس کا براہ راست نقصان سیاسی جماعتوں اور ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک کو ہوا۔
اس کے علاوہ مشرف جو اب اپنے ادارے کے لئے بوجھ بن گیا تھا، اس کو سیاسی اکھاڑے سے باہر کرنا تھا، مگر ایوب خان کے خلاف سیاسی تحریک کے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ یہ کام شاید سیاسی جماعتوں سے نہیں کروانا چاہتی تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک سیاسی عمل اور تحریک شروع ہو سکتی تھی جو مستقبل میں کوئی دوسری شکل اختیار کر جاتی اور نہ اس سے پی سی او زدہ عدلیہ کا امیج بہتر ہو سکتا۔ اس کے لئے ایک منیج ابل اور کنٹرول ایبل تحریک کی ضرورت تھی جو کہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد آسانی سے تحلیل کی جا سکے۔
اس لئے عدلیہ اور وکلا کا انتخاب کیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہے کہ ایک کمزور صوبے سے آیا ہوا پی سی او زدہ جج ایک فوجی آمر کے سامنے 'ناں' کہہ سکا اور ان کے ہٹانے پر باقی پی سی او زدہ ججز اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور راتوں رات پورے ملک کے وکلا ایک تحریک میں منظم ہو کر سر اٹھانے لگے۔
اگر عدلیہ اور جج کے وقار اور آزادی کا مسئلہ تھا تو اس صوبہ سے سپریم کورٹ میں ایک اور جج قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے کیا کیا نہیں ہو رہا ہے۔ جب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو تاریخی کارنامے یا فیصلے کیے، ایک کوئٹہ کے وکلا پر دہشتگرد حملے کے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی کر کے رپورٹ مرتب کر کے اور دوسرا فیض آباد دھرنے کے حوالے سے فیصلہ، اس دن سے ناصرف ان کے اور ان کے خاندان کے زندگی مشکل بنا دی گئی بلکہ سپریم کورٹ میں ان کو تقریباً سائیڈ لائن کیا گیا۔
نواز شریف کے لانگ مارچ اور اس وقت آرمی چیف جنرل کیانی کی مداخلت یا ثالثی کے نتیجے میں جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے ججوں کی بحالی کا اعلان کیا۔ بعد میں گیلانی صاحب نے جولائی 2010 میں جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا اعلان بھی قوم سے خطاب میں کیا۔
اس وقت میں زلزلہ متاثرین کے لئے ریلیف اور بحالی کے پراجیکٹ کے مانیٹرنگ کے سلسلے میں کشمیر میں تھا۔ رات گئے جب مظفر آباد پہنچا اور یہ خبر سنی تو مجھے عجیب سا لگا کہ وزیر اعظم نے ججوں کی بحالی کے لئے اعلامیہ جاری کرنے کے بجائی قوم سے خطاب کا راستہ کیوں چُنا؟
اپریل میں جب اسلام آباد میرا ایک سیمنار کے دوران آمنا سامنا ایک ریٹائرڈ جنرل، جو آئی ایس آئی کا سربراہ بھی رہ چکا تھا اور ایک نامی گرامی وکیل جو بعد میں نگران وفاقی وزیر بن گیا تھا، سے ہوا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا 'جنرل اب مارشل لا سپریم کورٹ لگائے گا'، جواب میں دونوں نے معنی خیز انداز میں بلند قہقہہ لگایا۔
اس کے بعد جو ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جسٹس افتخار چودھری نے سو موٹوز کے ذریعے حکومت اور انتظامی مشینری کو بے دست و پا کیا۔ چینی کی قیمت سے لے کر ریکوڈک، انتظامی آفیسروں اور حکومتی حکام کی تقرریوں، پارلیمنٹرینز کی تعلیمی اہلیت سے لے کر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر تک پہنچایا گیا۔ عدالت سے باہر طالبان کے لبادے میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں کو گھروں تک محدود کیا گیا۔ یہ سلسلہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں دوبارہ پھر ایک بار آب وتاب سے شروع ہوا۔ ایک اور منتخب وزیر اعظم کو ایک مضحکہ خیز غیر معقول بنیاد پر چلتا کیا۔
آج کل جو ریلیف ایک سیاسی جماعت کو مل رہا ہے، اس سے یہ عدلیہ ایک اور تاریخ رقم کر رہی ہے۔ گذشتہ حالات و واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کا 25 مئی کا آرڈر اور اس کی رو سے انتظامی امور میں مداخلت آئینی اصول و روایات سے شاید مطابقت نہیں رکھتی لیکن سیاسی کردار کا تسلسل ضرور لگتا ہے۔
ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہائبرڈ رجیم کی ناکامی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا اب کیا اگلا نشانہ پارلیمانی نظام ہے؟ کیا عدلیہ کے ذریعے اس راستے کی رکاوٹیں ختم کی جا رہی ہیں؟ کیا عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ بطور سپوائلر استعمال کر کے ان کے ذریعے منیج ابل انارکی یا انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ ثالثی یا آخری چارہ کار کے نام پر نظام کو لپیٹ لے؟ اللہ کرے کہ یہ سارے سوالات اور خدشات غلط ثابت ہو جائیں۔