پاک آرمی ہماری بقا کی ضامن ہے اور یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر ہم ایک نیوکلیئر طاقت بنے اور ابھی تک ہیں تو اس میں بھی 100 فیصد کردار پاکستان آرمی کا ہے۔ ایک ادارے اور ریاستی عضو کے طور پر پاکستان آرمی ایک انتہائی منظم ادارہ ہے جس کا ثبوت گاہے بگاہے پاکستان آرمی فراہم کرتی رہتی ہے۔
ہمارے سیاسی ڈھانچے کی ہئیت شروع دن سے ہی ایسی رہی ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر ایک مضبوط سیاسی نظام کو بنانے اور ترتیب دینے میں ناکام رہے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سیاست دان بننے کے واسطے کسی بھی طور کسی بھی قسم کے میرٹ یا قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پہلے پہلے کچھ لینڈ لارڈز اور بعد میں سرمایہ دار سیاست کو صرف اور صرف اپنا ہی حق سمجھتے رہے۔ یہ لوگ اپنے نوزائیدہ بچے کے کان میں اذان دیتے وقت اسے یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ آپ حکمران خاندان میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان سیاست دانوں کو اپنی یا ملک کی ساکھ یا عوام کی بھلائی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سیاست ہی ان کا کاروبار ہے جس میں رہ کر وہ اپنی اور اپنے بچوں کی دولت میں بیش بہا اضافہ کرتے رہتے ہیں، بغیر کوئی اصل کاروبار کیے۔
اب چونکہ وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں ان کا نا تو کوئی کردار ہوتا ہے اور نا ہی کوئی دین ایمان۔ پھر انہوں نے اپنے اوپر مزید حکمران رکھے ہیں جن سے وہ مدد مانگتے ہیں اور اپنے سیاست دان بھائیوں کو نشانہ بناتے بناتے خود پالتو کُتوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا کرتے کرتے یہ سب لوگ اسٹیبلشمنٹ کے پالتُو کُتّے بن گئے ہیں۔ یہی حال انہوں نے ملک کی معیشت کا کر رکھا ہے کہ یہاں کسی چیز کی انڈسٹری نہیں لگانی بلکہ باہر کی بنی اشیا کی دلّالی کرتے رہے ہیں اور مڈل مین بروکر بن کر باہر سے چیزیں لا لا کر بیچتے رہے ہیں جس میں ان کو بہت زیادہ رشوت کا پیسہ کِک بیکس کے زمرے میں مل جاتا ہے۔ یوں نہ ہاتھ دُکھا نہ پاؤں اور مفت میں بیرونی ملکوں میں اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹس بھرتے رہتے ہیں۔
یہ بھی سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ جس ملک کے یہ خود حکمران ہیں اسی ملک پر ان کو ذرا بھی اعتبار نہیں۔ اس ملک کا نظام انہوں نے محض استحصال کرنے کی غرض سے بنایا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے اصل ٹھکانے باہر کے ملکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کہ کسی عام سکول کے مالک کے بچے کسی دوسرے اچھے نجی سکول میں اس وجہ سے پڑھتے ہیں کہ اس کو اپنے بنائے سکول کے دو نمبر ہونے پر ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہوتا جسے اس نے ترسیلِ علم کے لئے نہیں بلکہ صرف پیسے کمانے کے لئے بنایا ہوتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ تو تب سیاست سے باہر ہو گی جب لاغر سیاسی بچے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لائق ہو جائیں گے یا ہونا چاہیں گے۔ جب تک یہ بچے چلنا نہیں سیکھیں گے، بدستور اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑے رہنے پر مجبور رہیں گے۔
اگر کوئی دوسرا قبیلہ یا کوئی دوسرا گاؤں مجھے کرّوفر کے ساتھ اپنا سربراہ بن جانے کی پیش کش کرے تو میں تو کیا، میری آنے والے پیڑھیاں بھی اس عہدے پر فائز رہنے کو ترجیح دیں گی بلکہ کچھ ایسا نظام وضع کر دیں گی کہ ہم ہی سربراہ رہیں اور یہ ہمیشہ ہمارے جوتے پالش کرتے رہیں۔ جو آدمی قبض دور کرنے کے لئے مسلسل دو تین سال تک دوا پیتا رہے، اس کا دوا کے بغیر گزارا ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اب ملک خداداد میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی سیاست ممکن ہی نہیں۔