امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کا میدان کشمیر بنے گا

امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کا میدان کشمیر بنے گا
وقت گزر رہا اور بلیاں تھیلے سے باہر آرہی ہیں، معلوم ہو رہا ہے کہ کرپشن کے بیانیے نے کہاں سے اور کیوں جنم لیا۔ ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نواز شریف اور آصف زرداری کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو سازش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ مسائل میں گھری ہوئی عوام کو تو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن جاگتے ذہنوں کو بےخبر رکھنا اور بیوقوف بنانا اس دور میں ممکن نہیں۔ سب کے سامنے یہ بات عیاں ہے کہ کس طرح پاکستان میں کرپشن کے بیانیے کو عروج دیا گیا اور پھر عین وقت پر کرپشن بیانیہ رکھنے والوں کے لیے پانامہ لیکس آسمانی صحیفہ بن کر اترا اور پھر کچھ سہولت کاری اور دستکاری کی مدد سے رجیم چینج کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تاریخ کے طالبعلم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رجیم چینج کرنے کا شوق کس عالمی طاقت کو ہے اور کیوں ہے۔

پوری دنیا میں پانامہ لیکس سے اتنا ہنگامہ نہیں ہوا جتنا پاکستان میں ہوا، جس کی وجہ پاکستان میں پہلے سے تیار کردہ میدان تھا۔ جس میں کرپشن کا منجن اپنے عروج پر بک رہا تھا۔ نواز شریف کے خلاف ایک واضح منصوبے کے تحت میڈیا ٹرائل کے ذریعے اتنی نفرت پیدا کی گئی کہ ذہن یہ قبول کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ بھلا صرف اس "چور" کے لیے اتنی بڑی سازش تیار کرنے کا کس کے پاس وقت ہے۔ لیکن، اب امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز جس طرح کے بیان دے رہی ہیں، اس سے بہت سی گتھیاں سلجھ رہی ہیں۔

حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا پہلا مرحلہ تجارتی جنگ کی صورت میں سامنے آنے کو ہے۔ ماضی میں پاکستان، سویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ میں اہم کردار کا حامل رہا ہے  اور اس جنگ میں پاکستان کا جھکاؤ اس خطے کی طاقت، سویت یونین کے بجائے سات سمندر پار امریکہ کی طرف رہا، جس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ جتنے دلائل اس سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے حق میں ہوسکتے ہیں اتنے ہی اس کے خلاف بھی دیے جا سکتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چین کو آج ہم گرم پانیوں تک رسائی دے رہے ہیں تو اس وقت سویت یونین کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ کیا سویت یونین واقعی افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا؟ کیا سویت یونین کو روکنے کا کوئی سفارتی طریقہ نہیں تھا؟ کیا ہم سویت یونین کے اتحادی نہیں بن سکتے تھے؟ کیا آج ہم چین کو گوادر تک رسائی دے کر اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں؟ یا آج بھی ہم سویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کو صحیح سمجھتے ہیں؟ اگر سویت یونین واقعی ہمارا دشمن تھا تو اس نے کیوں کراچی میں اتنی بڑی سٹیل مل لگانے میں پاکستان سے تاریخی تعاون کیا؟ کیا امریکہ ایسی کوئی غلطی کبھی کر سکتا ہے کہ پاکستان کو سٹیل مل جیسے ادارے بنانے میں مدد دے؟ ان سوالات پر شاید قیامت تک بحث ہوتی رہے لیکن واضح جواب شاید کبھی نہ مل سکے۔

تاریخ دان بھی کسی نہ کسی وجہ سے بہت زیادہ ایک جانب جھکاؤ کر لیتے ہیں، میری نظر میں اس موضوع پر سبق سیکھنے کی غرض سے آزاد ذہن کے ساتھ مزید تحقیق کرنی چاہیے۔ کیوں کہ مستقبل سنوارنے کے لیے ماضی کے اقدامات سے سبق سیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے، درست سبق تب ہی سیکھا جا سکتا ہے جب تاریخی حقائق درست ہوں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں تو تاریخ کو بھی مسخ کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ کی پالیسی گاؤں کے ظالم چوہدری کے طرح ہے جو کھانے کو تو دیتا ہے لیکن کمانے کا طریقہ کبھی نہیں سکھاتا اور نہ کبھی سیکھنے دیتا ہے۔ جبکہ چین اور روس کی پالیسی امریکہ کے برعکس ہے یہ کھانے کو کچھ نہیں دیتے لیکن کمانے کے طریقے سکھا دیتے ہیں یا کمانے کے لیے جن اوزاروں کی ضرورت ہو وہ مہیا کر دیتے ہیں۔

میری نظر میں امریکہ اور چین میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ چین کا ایجنڈا صرف تجارتی ایجنڈا ہے جبکہ امریکہ کا ایجنڈہ تجارتی کم اور سیاسی اور مذہبی زیادہ ہے۔ اس لیے امریکہ کا تعاون ہمیشہ سیاسی اور جنگی معاملات کے گرد گھومتا ہے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین مختلف ممالک کو ایسے معاہدے کرنے پر مجبور کر رہا ہے جو ان کے مفاد میں نہیں، پاکستان کو چین سے سی پیک منصوبے کی شفافیت سمیت سخت سوالات کرنے ہوں گے۔ اگر چین اس بڑے منصوبے کو جاری رکھتا ہے تو اس سے پاکستان کی معیشت کو طویل مدتی نقصانات ہوں گے۔ کیوں کہ اس منصوبے سے پاکستان کو کم چین کو زیادہ فائدہ ہے۔ سی پیک سے صرف بیجنگ کو فائدہ ہوگا جبکہ امریکہ نے پاکستان کو اس سے بہتر ماڈل کی پیشکش کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایم ایل ون منصوبے کی لاگت میں اضافے اور سی پیک منصوبوں کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے۔

ایلس ویلز کے اس بیان سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں۔ نمبر 1 یہ کہ امریکہ کافی عرصے سے سی پیک منصوبے کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ نمبر 2 امریکہ سی پیک منصوبے کو پسند نہیں کرتا اور اسے اپنے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ نمبر 3 امریکہ پاکستان کی عوام کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ سی پیک پاکستان کے حق میں اتنا بہتر نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں دراصل کرپشن کے مواقع موجود ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے حکمران پاکستان کا مفاد نظر انداز کر کے اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

امریکہ اس وقت پاکستان کو امداد کی بندش، سفارتی سطح پر عدم تعاون، بھارت نوازی اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن، اگر پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف ہی رہا تو مستقبل میں امریکہ کا طرز عمل زیادہ جارحانہ اور پاکستان مخالف بھی ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے پانچویں میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات چینی سفیر یاؤ جنگ نے امریکی بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز کے قیام، تعلیم اور زراعت سمیت دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی سمیت شاہراہوں کی تعمیر پر توجہ دی گئی۔ دونوں ممالک کے تعاون سے یہ منصوبہ کامیابی کے راستے پر گامزن ہے۔ سی پیک کے تحت چینی اور پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ممالک خصوصی طور پر اقتصادی تعاون کو فروغ دیں گے۔ سی پیک کا مقصد پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ ایلس ویلز کے بجلی ٹیرف کے زیادہ ہونے کے بیان کو سن کر حیرت ہوئی، سی پیک کے بارے میں کرپشن کی بات کرنا آسان ہے جب آپ کے پاس درست معلومات نہ ہوں۔ سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے کوئی کرپشن سامنے نہیں آئی۔ تمام منصوبوں میں مکمل شفافیت پائی گئی، ایلس ویلز نے ایم ایل ون پر بھی بات کی، ایم ایل ون ریلوے منصوبہ کی لاگت 9 ارب ڈالر ہے، یہ صرف ایک تخمینہ ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام کو ایم ایل ون کے تخمینے پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ ان کے دفتر کے آداب کے خلاف ہے۔ سی پیک نے پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، جاری 20 منصوبوں میں 75ہزار سے زائد پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک مشترکہ فائدے کا منصوبہ ہے، 170 ممالک اس کا حصہ ہیں یقین دہانی کراتا ہوں کہ سی پیک چین کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ میڈیا حقیقت دیکھے، اس کے فوائد دیکھے اور منفی پراپیگنڈے کو نظر انداز کرے۔



انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ، منصوبہ بندی کی کمی، سیاسی عدم استحکام، مفاد پرستی پر مبنی طرز حکمرانی اور چند اور دیگر وجوہات کی بنا پر معیشت کی تنزلی کی جس حد پر آچکا تھا اس سے فوری باہر نکلنے کا سی پیک ہی واحد باعزت راستہ تھا۔ لیکن امریکہ کے تمام تر خدشات بھی بد نیتی پر مبنی نہیں۔ پاکستان کو بہت باریک بینی سے سی پیک کے ممکنہ اثرات کا بھی اندازہ لگانا ہوگا خاص طور اسمگلنگ کی روک تھام اور پاکستان کی لوکل انڈسٹری پر چائینیز مصنوعات کے اثرات کا اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ سی پیک پاکستان کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت نہ ہو۔

امریکا اور چین کے درمیان گذشتہ کافی عرصے سے تجارت کے معاملے پر سرد جنگ کی سی کیفیت ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے خبردار کیا کہ ہم امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ایک عالمی فورم پر خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ چین امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکا کے ساتھ ابتدائی طور پر ایک تجارتی معاہدہ چاہتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ جیسے ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم تجارتی جنگ شروع کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم اس سے خوف زدہ بھی نہیں، جب ضرورت ہوئی تو تجارتی جنگ سے پیچھے بھی نہیں ہٹیں گے۔

جب سویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ ہوئی تو اس وقت افغانستان اس سرد جنگ کا گرم میدان بنا۔ اب امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ طور پر ہونے والی سرد جنگ کا گرم میدان کشمیر اور گلگت بلتستان کا خطہ بن سکتا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جما لینا میری نظر میں اسی سرد جنگ کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور بھارت نے اتنا بڑا اقدام یونہی اکیلے نہیں کر لیا۔ اس کے پیچھے بھی یقینا کوئی یقین دہانی اور تھپکی موجود ہے۔ یہ اقدام صرف ایک ٹریلر اور سافٹ دھمکی ہے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان سے چین کے مفادات بھی وابسطہ ہیں، بغیر کشمیر اور گلگت بلتستان کے سی پیک کا فنکشنل ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسے موقع پر جب چین اور امریکہ کے درمیان ٹینشن بڑھ رہی ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لینا بھارت کے امریکی کیمپ میں ہونے کو ظاہر کرتا ہے، جس کے جواب میں پاکستان کا کرتارپور باڈر کھولنا اور پاسپورٹ کی شرط ختم کرنا دراصل اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ جسے بھارت بخوبی سمجھتا ہے۔ بھارتی مقتدرہ کرتارپور کھلنے اور پاسپورٹ کی شرط ختم ہونے پر خوش نہیں۔ جس کا اظہار بابری مسجد کے فیصلے سے کیا گیا ہے۔ بھارت سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح کرتارپور راہداری بھی زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرے گا اور اسے بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ سرد جنگ آنے والے دنوں میں بڑھ سکتی ہے اور اب بھارت کا اگلا ہدف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان چین کے ساتھ قربتیں مزید بڑھاتا رہا تو بھارت کا طرز عمل مزید جارحانہ ہوسکتا ہے۔ اگر بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کرتا ہے تو چین پاکستان کے اور سی پیک کے دفاع میں ضرور پاکستان کی مدد کو آئے گا اور امریکہ بھارت کی پشت پر ہوگا اور یوں کشمیر کا خطہ امریکہ اور چین کی سرد جنگ کا گرم میدان بن جائے گا۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔