"امریکہ کی پاکستان کو بڑی پیشکش، سی پیک کے بدلے کشمیر"

" سی پیک" بارے کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ خطے میں معاشی طور پر "گیم چینجر" ثابت ہوگا لیکن اس سے پہلے چین کے اشتراک سے پاکستان میں شروع کیا جانے والا یہ پراجیکٹ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے لئے "گیم چینجر" ضرور بنتا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں پرانے پاکستان کے سیاسی گھوڑوں کو پھر سے تازہ دم کرنے کے لئے ابتدائی مرحلے میں یعنی اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے رعائتیں یا ریلیف ملنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ بہادر نے پاکستانی میدان سیاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو پیکج آفر کر دیے ہیں کیونکہ امریکہ سی پیک سبوتاژ کرنے کے لئے ایک طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہتا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی حمایت کا بھی متمنی ہے اور اس کے لئے کوشاں ہے۔ ادھر چین نے بھی اپنی روایت کے برعکس معروضی عصری تقاضوں کے تحت پاکستانی سیاست میں "ناگزیر مداخلت" شروع کر دی ہے اور عظیم دوست ملک ہی کی خواہش پر نہ صرف چیف فرشتہ کو توسیع دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ نوازشریف کی نون لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال کی آزادی بھی اسی عظیم ہمسائے نے یقینی بنائی، ورنہ کپتان کی سرکار نوازشریف کی لندن روانگی سے قبل ہی احسن اقبال کو گرفتار کرنے کی تیاری کر چکی تھی۔ مگر عظیم ہمسایہ دوست ملک نے بروقت مداخلت کر کے " سی پیک" کے ابتدائی انچارج سیاست دان کو رہائی دلوائی۔

موجودہ سرکار کے منصوبہ بندی کے پہلے وفاقی وزیر کو اسی دوست ملک کی خواہش پر ہٹا دیے جانے کا واقعہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے سب سے چہیتے مذہبی لیڈر کو بھی دراصل عظیم دوست ہمسائے ہی کی ایما پر پابند سلاسل کیا گیا۔

طالبان اور لشکری پروفیسر کی جماعت چین کے صوبہ سنکیانگ میں آباد ایگور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے سرگرم تھے اور چین ہی کی شکایت پر ان دونوں مذہبی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن عمل میں لایا گیا جس پر FATF کے دباؤ کا غلاف چڑھا دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق مولانا کو متحرک کر کے پھر سے ملکی سیاست میں Relevant بنانے کی غرض سے ان کے مارچ شو کو خطیر فنڈز بھی فراہم کیے گئے کیونکہ واشنگٹن کی تمنا ہے کہ مولانا سنکیانگ کے ایگور مجاہدین کی مدد کا کام وہیں سے سنبھال لیں جہاں سے طالبان اور لشکری پروفیسر کی تنظیم کے کارکن چھوڑ گئے تھے۔ امریکہ کے لئے سنکیانگ میں شورش جاری رکھوانا بہت اہم ہے کیونکہ وہیں سے سی پیک شروع ہوتا ہے۔

سی آئی اے نے باغی ایگور مسلمانوں کی ایک تنظیم بنوا کر جرمنی میں اس کا دفتر بھی بنوا رکھا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے حریت پسندوں، خاص کر نوجوانوں کو وفاق کے خلاف منظم کرنے پر بھی بھرپور طور پر کام ہو رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک این جی او کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں لاہور میں ایک سیمینار بھی کروایا گیا۔

سنا ہے ری پبلکن امریکی سینیٹر لنڈسے گراھم ایک وفد ہی نہیں بلکہ پاکستانی حکمرانوں یعنی اصل پالیسی سازوں کے لئے ایک پرکشش نیا امدادی پیکج بھی لے کر اسلام آباد پہنچے ہیں جس میں بات مان لینے کے بدلے کشمیر کا مسئلہ حل کروا دینے سے لے کر دفاعی شعبے میں ایک بڑی امداد کی پیشکش تک بہت کچھ شامل ہے۔

امریکہ بہادر سینیٹر لنڈسے کے ذریعے سی پیک فتح کرنے کا ایک اور چانس لینا چاہتا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سی پیک کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔