Get Alerts

'جنرل عامر کو جوائنٹ چیف مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا تو جی ایچ کیو سے سمری رک گئی'

'جنرل عامر کو جوائنٹ چیف مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا تو جی ایچ کیو سے سمری رک گئی'
جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع لینے کی بھرپور تگ و دو کرتے رہے لیکن انہیں ناکامی کا سامنا ہوا جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر  کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ہمیشہ سے ہی حکومتی اتحاد کا انتخاب تھے   تاہم لیفٹننٹ جنرل محمد عامر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کرنے کا فیصلہ ہوتے ہی جنرل ہیڈ کورٹرز سے سمری روک لی گئی۔

صحافی اسد علی طور نے اپنے یوٹیوب چینل پر وی-لاگ میں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع لینا چاہتے تھے۔ عمران خان نے اتنا برا بھلا کہا اس کے باوجود جنرل باجوہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ جب وہ حکومتی اتحاد  پر دباو ڈال کر توسیع لینے کی کوشش کریں تو عمران خان ان کی مخالفت نہ کریں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے یہ باور کروانا شروع کر دیا کہ اگر مجھےتوسیع نہیں دلوائیں گے تو  عاصم منیر آرمی چیف بن جائیں گے اور عاصم منیر وہی شخص ہیں جن کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سےہٹانے کے لئے آپ نے اتوار کے روزکہا تھا اور اگر آپ توسیع کروا دیں تو عاصم منیر  ریٹائر ہو جائیں گے۔

صحافی اسد علی طور نے کہا کہ عمران خان کو ایک دوسری آفر بھی دی گئی تھی  کہ میری توسیع سے جنرل فیض حمید آرمی چیف کی ریس میں رہیں گے۔ آپ میری توسیع کی حمایت کریں۔ حکومت سے مجھے توسیع مل جائے گی۔ مارچ میں عام انتخابات کروا دوں گا۔ اگر آپ مارچ میں اقتدار میں آجاتے ہیں تو آپ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ سے قبل ان کو آرمی چیف بنا لینا۔ یہ چند شرائط تھی جن پر جنرل قمرجاوید باجوہ اور عمران خان کے مابین اتفاق تھا۔

دوسری جانب حکومت کے ساتھ  یہ کھیل کھیلا جارہا تھاکہ آپ مجھے توسیع دیں آرمی ایکٹ کے مطابق جو مزید 17 ماہ بنتی ہے تو میں آپ کو پنجاب کی حکومت واپس لے کر دوں گا جہ کہ ابھی چوہدری پرویز الٰہی کے پاس ہے۔ توسیع ملنے کے بعد 17 ماہ کے لئے میرا عہدہ مضبوط ہو جائے گا کیونکہ ابھی میں ایک آوٹ گوئنگ آرمی چیف ہوں میں ایسا کوئی کھیل نہیں کھیل سکتا۔حکمران اتحاد کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ پنجاب واپس تو چاہتے تھے لیکن اپنی شرائط پر۔ پہلے پنجاب واپس لے کر دیں اور پھر ایکسٹینشن کی بات کیجیئے گا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بسااوقات نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ میں  پاکستان تحریک انصاف مین شامل ہی جنرل باجوہ کے کہنے پر ہوا تھا۔ اس لئے بھی حکومت کو اندازہ تھا کہ جنرل باجوہ  وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ اس لئے ان کو توسیع نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت پر دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو آرمی چیف تعینات کریں کیونکہ یہ میرے امیدوار ہیں۔  حکومتی اتحاد کا یہ باننا تھا کہ جب جنرل قمر جاوید کو توسیع نہیں دینی تو ان کے پسندیدہ شخص کو آرمی چیف بھی کیوں بنائیں۔ جنرل باجوہ کہ اسی سفارش کی وجہ سے لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کے آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہوگئے ۔

پلان اے، توسیع، اور پلان بی،  لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد بطور آرمی چیف، ناکام ہونے کے بعد جنرل قمر جاوید  نے پلان سی کے لئے دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ  لیفٹیننٹ جنرل اظہرعباس کو آرمی چیف بنایا جائے۔ اس مطالبے پر حکومت پھر سے چوکنی ہو گئی۔

صحافی نے کہا کہ اب اس صورت میں مسئلہ یہ تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل اظہرعباس جو سینارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے ان  کی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد ،لیفٹننٹ جنرل فیض حمید  اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی بنتی تھی اور دوسر ی جانب  لیفٹننٹ جنرل نعمان راجہ اور ، لیفٹننٹ جنرل محمد عامر  سے بھی بنتی تھی جن   کی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سے نہیں بنتی تھی۔ ان کا بھی "وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے" جیسا حساب تھا اسی لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ انہیں آرمی چیف نہیں بنائیں گے۔

جب انتخاب کے لئے لیفٹننٹ جنرل نعمان راجہ زیر غور آئے تو اس میں یہ بھی بحث ہوئی کہ چونکہ ان کی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سے اس وقت کی ٹسل چل رہی ہے جب وہ آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے تب لیفٹننٹ جنرل نعمان آئی ایس آئی کے اینالیسس ونگ کے ڈی جی تھے۔ یہ تمام چونکہ اک ہی لانگ کورس کے افسران تھے تو حکومت کا اس پر یہ موقف تھا کہ ان کی جتنی بھی ٹسل ہو تعلقات تو کہیں نہ کہیں ہوں گے۔ اس وجہ سے یہ بھی آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہو گئے حالانکہ حکومتی اتحاد کا پلان بی یہی تھا کہ اگر جنرل عاصم منیر  آرمی چیف نہیں بنے تو لیفٹننٹ جنرل نعمان کو آرمی چیف بنا دیں گے۔

پھر لسٹ میں تھے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید   جنہیں اتحادی حکومت نے کسی صورت آرمی چیف نہیں بنانا تھا۔ تحریک عدم اعتماد درحقیقت عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید  کے خلاف آئی تھی کہ ان کو آرمی چیف نہ بنایا جائے۔ لیکن انہوں نے بھرپور کوشش کی اور لندن میں ن لیگ کی قیادت سے رابطے کئے کہ آپ مجھے آرمی چیف بننے دیں میں آپ کو بالکل بھی تنگ نہیں کروں گا۔ وہ بھی آرمی چیف کی ریس سے باہر ہوگئے۔

لیفٹننٹ جنرل محمد عامر   سابق صدر آصف علی زرداری  کے دورحکومت میں ملٹی سیکریٹری رہ چکے ہیں اس لئے ان کے بارے میں اکثریت رائے یہ تھی کہ وہ آصف زرداری کے قریبی ہیں۔ آصف زرداری  نے بھی بھرپور کوشش کی کہ وہ 4 سٹار جنرل بن جائیں جس کے لئے انہوں نے فارمولا پیش کیا کہ  اگر سید عاصم منیر کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں تو  چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کور کمانڈر گوجرانولہ لیفٹننٹ جنرل محمد عامر کو بنا دیں۔ اس صورت میں باقی 4 جنرلز "سپرسیڈ" ہو جائیں گے اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے اور جو بھی حکومت مخالف گیم کی منصوبہ بندی ہو رہی پہو گی وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ مشورہ اکثریت کو پسند بھی آیا اور  وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش ہماری اولین ترجیح ہوگی۔

صحافی اسد علی طور نے مزید انکشاف کیا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ہمیشہ سے ہی حکومتی اتحاد کا انتخاب تھے کیونکہ حکومت کو ایسے امیدوار کی تلاش تھی جو نہ تو عمران خان کا حامی ہو اور  نہ ہی جنرل باجوہ کا تجویز کردہ امیدوار ہو۔ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ نہ تو ان کے ن لیگ کے ساتھ کچھ خاص تعلقات تھے نہ ہی  وہ کسی کے تجویز کردہ امیدوار تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عمران خان کی جانب سے ان کے بھرپور مخالفت کی جارہی تھی کہ اس کو آرمی چیف نہیں بننے دینا۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ عاصم منیر وہی شخص ہیں جن کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سےہٹانے کے لئےعمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا تھا ۔ انہیں عہدہ سنبھالنے کے آٹھ ماہ بعد ہی عہدے سے ٹرانسفر کروا دیا۔ اور یہ تمام کارروائی اتوار کے روز ہوئی۔

اسی دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سمری روک لی جس کے بعد ان کی حکومتی اتحاد سے ڈیل ہوئی کہ سمری میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کا نام شامل کیا جائے۔ ہم آپ کے تجویز کردہ امیدوار  لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو  چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کر دیں گے تاہم آرمی چیف عاصم منیر ہی بنیں گے۔

سینئر صحافی مزمل سہراوردی نے 'نیا دور '  کے لئے لکھے کالم میں یہ تمام انکشافات کئے ہیں۔ وہ وزیراعظم شہباز شریف کے بہت قریبی ہیں اس لئے ان کی تحریر ایسے ہی ہے جیسے وزیراعظم شہباز شریف کا اس معاملے پر تحریری وزژن ہو۔ انہوں نے اپنے کالم میں شہباز شریف کے خدشات اور ان کے ذہن میں چلنے والی تمام صورتوں کا احوال بیان کیا ہے۔