'نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر عالمی تنہائی ختم کرلی، اے پی سی تقریر اسی کا اثر ہے'

'نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر عالمی تنہائی ختم کرلی، اے پی سی تقریر اسی کا اثر ہے'
سہیل وڑائچ نے بی بی سی کے لئے اپنے تازہ ترین کالم میں اتوار کو ہونے والی اے پی سی میں نواز شریف کی جانب سے کی گئی دھواں دھار تقریر کے بارے میں چار مفروضے بیان کیے ہیں۔ جی ہاں، انہوں نے اسلام آباد میں جاننے کی کوشش کی کہ لوگ اس تقریر کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں تو ان کے سامنے چار نظریات آئے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پہلا مفروضہ تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے لہجے میں جارحیت اور تلخی محمد زبیر اور آرمی چیف کی دو ملاقاتوں میں مثبت نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے آئی۔ اس مفروضے کے مطابق نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ موجودہ سیٹ اپ کی اسی طرح حمایت جاری رکھیں گے تو پھر ن لیگ جارحانہ انداز اپنائے گی۔

اس مفروضے کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ اگست کے اواخر اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق گورنر سندھ زبیر عمر کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں بتا دیا تھا کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں اور قانونی معاملات عدالت میں طے ہوں گے۔ یعنی ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ زبیر عمر نواز شریف کے لئے کسی قسم کا ریلیف مانگنے کے لئے آئے تھے اور جنرل باجوہ نے ان کو صاف انکار کر دیا۔

دوسری جانب زبیر عمر کا کہنا ہے کہ نہ تو ان کو نواز شریف نے بھیجا تھا اور نہ ہی انہوں نے ریلیف کا کوئی مطالبہ کیا۔ انہوں نے جنرل صاحب سے متعدد موضوعات پر بات کی اور اس میں خصوصی طور پر معیشت کے لئے وہ بات کرنے گئے تھے اور زیادہ تر وقت اسی پر بات ہوئی۔

سہیل وڑائچ کے مطابق دوسرا مفروضہ یہ ہے نواز شریف کو جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف بلا سوچے سمجھے کوئی تقریر نہیں کرتے اس تقریر سے پہلے انھوں نے ٹھنڈے دل سے اپنی حکمت عملی بنائی ہو گی۔

بیان جار حانہ تھا مگر اس کی وجہ جذباتی نہیں سوچی سمجھی سکیم ہو گی اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو کہیں سے امید دلائی گئی ہے کہ یہ وقت وار کرنے کا ہے کیونکہ اب حکومتی کہانی لمبی چلتی نظر نہیں آرہی اسی ممکنہ اطلاع کی بناء پر ان کی تقریر میں جارحیت اور مزاحمت کا تڑکا تھا۔

تیسرے مفروضے کے تانے بانے عالمی دنیا کی سازشوں سے ملتے ہیں۔ اس مفروضہ کہانی کے مطابق لندن میں نواز شریف ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، وہ بین الاقوامی دنیا کے کئی اہم کرداروں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ اپنے اثرو رسوخ سے موجودہ پاکستانی حکومت کے خلاف لابنگ کر رہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومتی حلقوں کو یقین ہے کہ سعودی عرب اور عمران حکومت کے تعلقات کی خرابی میں جہاں دیگر عناصر کار فرما ہیں وہاں میاں نواز شریف کے حلقہ اثر نے بھی سعودی عرب میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اور عرب سفارتکاروں میں حالیہ دنوں میں کچھ رابطے بھی ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین اور امریکہ کے متضاد مفادات کے باوجود جہاں چین کے سی پیک کی پاکستانی رفتار پر تحفظات ہیں وہیں ہم امریکہ کی افغانستان میں مدد کے باوجود ابھی تک ان سے اپنی امداد بحال نہیں کروا سکے۔ گویا چین اور امریکہ دونوں طرف سے کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔

اس مفروضے کے حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ گذشتہ ہفتے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ لندن میں نواز شریف اور سعودی عرب کے بادشاہ کے ایک پیغام بر کے درمیان اگست کے آخری ہفتے میں ایک ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد ایک اور ملاقات دو پیغام بروں اور نواز شریف کے درمیان ان کی لندن رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ اس حوالے سے انگریزی ہفت روزے فرائیڈے ٹائمز میں بھی خبر دی گئی تھی۔ غالب امکان یہی ہے کہ نواز شریف اپنی عالمی تنہائی دور کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور سعودی عرب کی جانب سے بھی گذشتہ ماہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سخت بیانات آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ کہنا کہ نواز شریف نے اپنے تعلقات استعمال کر کے سعودی عرب اور عمران خان کے تعلقات خراب کر دیے تو یہ شاید سابق وزیر اعظم کو ضرورت سے زیادہ کریڈٹ دینے والے بات ہے۔ ملکوں کے درمیان تعلقات یوں نہیں اچھے یا برے ہوتے۔ البتہ تعلقات خراب ہونے کے بعد سعودی شاہی خاندان کے نواز شریف سے رابطے کرنا اور اس سے جلا پا کر نواز شریف کی جانب سے دلیرانہ بیانات دینا زیادہ قرینِ قیاس ہے۔

چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ ن لیگ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی جو سیاست کھیلتی آرہی ہے وہ چلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ شہباز شریف گڈ کاپ بن کر مفاہمتی اور مصالحتی سیاست کی بات کرتے آرہے ہیں جبکہ نواز شریف اور مریم اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن لیتے ہوئے جارحانہ اور مزاحمتی سیاست کرتے آرہے ہیں۔

بظاہر سہیل وڑائچ کا یہ مفروضہ سب سے زیادہ درست دکھائی دیتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ شہباز شریف اب تین سال سے پارٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک بالکل مختلف نظریہ سیاست رکھتے ہیں۔ جہاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے کے خواہاں ہیں، شہباز شریف تعلقات کو ٹھیک رکھنا چاہتے ہیں اور مل کر کام کرنے کے حامی ہیں۔ تاہم، گذشتہ تین سال کے دوران 2018 کے سینیٹ انتخابات بھی ہوئے، عام انتخابات بھی اور ساتھ ساتھ مسلسل مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوتے رہے۔ یہ جیلوں میں بھی جاتے رہے۔ اور اب شہباز شریف کے خلاف مزید مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں، جو کہ ایک واضح اشارہ ہے کہ شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کو لبھانے کی کوششیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسی صورت میں نواز شریف کے نظریہ سیاست کو پارٹی میں تقویت ملی ہے اور اب وہ بھرپور انداز میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں۔

لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے حاصل کیا ہوگا؟ ایک طرف تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان قربتیں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کی کم از کم موجودہ قیادت کے ساتھ تعلقات میں مستقبل میں کوئی بھی بہتری آنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ پہلے تو عمران خان خود کہتے تھے کہ وہی واحد آپشن ہیں۔ اب نواز شریف نے ان کے واحد آپشن رہنے کا پکا انتظام کر دیا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اس سب سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ وقتی طور پر واہ واہ تو ہو رہی ہے، خوب بہادری اور دلیری کے تمغے بھی سوشل میڈیا کی حد تک مل رہے ہیں۔ لیکن اس سے ہوگا کیا؟

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نواز شریف نے اس نظام میں بہت سیاسی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ قریب چالیس برس سے پاکستان کی سیاست کے مرکزی سٹیج پر موجود ہیں اور اس عرصے میں انہوں نے اپنے لئے عوام میں ایک وسیع حلقہ قائم کیا ہے۔ وہ اس حلقے کو نہیں کھو سکتے۔ اور 1999 کے بعد سے نواز شریف نے ایک ایسا سیاسی بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ ان کے ووٹر کو بھی اب ان کا یہی چہرہ پسند ہے۔ وہ انہیں 1980 اور 90 کی دہائی والے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس حلقے کو برقرار رکھنے اور اپنی بیٹی مریم نواز کے لئے تیار کرنے کے لئے ان پر لازم ہے کہ وہ ایسی سیاست کریں جو اس ووٹر کو پسند ہے۔ یہ جوا خطرناک ہے۔ اس میں یقیناً ناکامی کا بہت احتمال ہے۔ مگر شاید 71 برس کی عمر میں اب ان کے لئے ناکامی کا خوف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ ان آخری اوورز میں کچھ رنز سمیٹنا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے قرب کی سیاست اب مکمل طور پر عمران خان کی ہو چکی ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ سیاست ون ڈے یا ٹی 20 نہیں۔ یہ ٹیسٹ میچ ہوتی ہے۔ ایک سیشن بھی کھیل کا پاسہ پلٹ سکتا ہے۔ نواز شریف تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ وہ ماضی میں کئی پاسے پلٹ چکے ہیں۔ اس بار معاملہ کچھ زیادہ ہی کٹھن دکھائی دیتا ہے لیکن انگریزی میں کہتے ہیں Cricket by chance ہوتی ہے۔ وہ چانس لے رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں بال سٹیڈیم پار جاتی ہے یا باؤنڈری پر کھڑا کھلاڑی اسے کیچ کر کے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پویلین کی راہ دکھاتا ہے۔ آنے والے چند مہینے اہم ہیں۔