معروف یوٹیوبر اور صحافی عمران ریاض خان کی بازیابی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مرکزی کردار ادا کیا۔ عمران ریاض کو نواز شریف کا احسان مند ہونا چاہئیے کیونکہ میں نے اور دو دیگر سینیئر صحافیوں نے میاں نواز شریف سے رابطہ کر کے عمران ریاض کی بازیابی کے لئے درخواست کی اور انہوں نے آؤٹ آف دا وے (Out of the way) جا کر اسٹیبلشمنٹ سے بات کی۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چودھری نے صحافی عمران ریاض خان کی بازیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض خان بازیاب ہو گئے ہیں اور اب اپنے گھر میں اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔ اللہ پاک کے کرم سے اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہیں۔
صحافی نے کہا کہ عمران ریاض کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان کے ساتھ بڑے بھائیوں جیسا رشتہ ہے۔ متعدد بار ایک ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔ ماضی میں ایکسپریس نیوز میں کام کے دوران عمران ریاض نے ن لیگ کے قائد نواز شریف سے ایک سوال کیا تھا جس پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ میاں صاحب یا ان کے کسی ساتھی کی شکایت پر عمران ریاض کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ اس پر ہم نے بہت احتجاج کیا کیونکہ اگر ایک صحافی یا اینکر سوال ہی نہیں کرے گا تو وہ اور کیا کرے گا۔ صحافی کا تو کام ہی سوال کرنا، تحقیق کرنا اور حقائق سامنے لانا ہوتا ہے۔ تب میں نے کہا تھا کہ عمران ریاض ایک شاندار اور ایمرجنگ صحافی ہیں، اگر وہ سوال ہی نہیں کریں گے تو کام کیسے کریں گے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں ان کو دوبارہ بلا لیا گیا۔
عمران ریاض نے اس کے بعد اینکر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور اب وہ پاکستان کے بہترین اینکرز میں سے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے یو ٹیوب چینل بھی سٹارٹ کیا اور وہ پاکستان کے سب سے نامور سیاسی تجزیہ کار اور یوٹیوبر ہیں۔
عمران ریاض کے عمران خان سے تعلقات شروع ہوئے اور وہ ان کے اتنے قریبی ساتھیوں میں آ گئے کہ ان کے بیانیے کو لے کر چلنے لگے۔ اس دوران ان کی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور خصوصی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لاہوری گروپ سے قربتیں بڑھیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان کو دستاویزات پہلے دکھا دی جاتی تھیں اور اس کی بنیاد پر بیانیہ بناتے تھے۔ بیانیہ بناتے بناتے ایک وقت ایسا آیا کہ عمران ریاض چیئرمین پی ٹی آئی سے نظریاتی طور پر بھی جڑ گئے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے ہاتھ اٹھا لیے تب عمران ریاض پر برا وقت آ گیا کیونکہ وہ عمران خان کے بیانیے کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔
کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہواؤں کے رخ کے ساتھ اپنے سفر کو چلنے دیا اور عمران خان کا ساتھ دینے کے بجائے پیچھے ہٹ گئے لیکن عمران ریاض اتنا آگے بڑھ گئے کہ ایسا تاثر ملنے لگا جیسے انہوں نے پی ٹی آئی کو سیاسی طورپر جوائن کر لیا ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ ان سے ناراض ہو گئی۔ انہیں سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ چونکہ عمران ریاض جذباتی آدمی ہیں، وہ جس کا ساتھ دیتے ہیں، بھرپور دیتے ہیں، ورنہ نہیں دیتے۔ انہوں نے بارہا سمجھائے جانے پر بھی عمران خان سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب پی ٹی آئی کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو عمران ریاض بھی پکڑے گئے۔ انہیں سیالکوٹ سے گرفتار کیا گیا اور شہر کے قرب و جوار میں ہی رکھا گیا۔ انہوں نے بڑا برا وقت دیکھا۔ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ جوڑوں، پٹھوں اور ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ ہو گیا ہے۔
صحافی نے کہا کہ ہم جو کچھ کر سکتے تھے ہم نے کیا۔ دو صحافی ایسے ہیں جنہوں نے عمران ریاض کے لیے آؤٹ آف دا وے جا کر کوشش کی۔ انہوں نے میاں نواز شریف سے رابطہ کر کے عمران ریاض کی بازیابی کے لئے درخواست کی۔ اس پر میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے بات کی۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ گو عمران ریاض ہمیشہ میرے خلاف بولتا رہا ہے اور ان کے اور ان کے خاندان کے بارے میں خاص رائے رکھتا ہے لیکن وہ انسان ہے اور اس کی فیملی کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ جو انسانی حقوق ہیں وہ ملنے چاہئیں۔ انہیں عدالت میں پیش کرنا چاہئیے۔ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو پھر یہ معاملہ ان کے اور عدالت کے بیچ میں ہے۔ انہیں اپنا وکیل کرنے اور کیس کی پیروی کا موقع ملنا چاہئیے۔ انسانیت کے ناطے انہیں رہا کرنا چاہئیے۔ نواز شریف نے انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا کہ عمران ریاض جہاں بھی ہیں انہیں بازیاب کروایا جائے۔
جاوید چودھری نے کہا کہ نواز شریف کو یہ علم ہے کہ شریف خاندان کے بارے میں عمران ریاض خان کی کیا رائے ہے، تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نواز شریف نے عمران ریاض کی بازیابی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کیا جس کے بعد معروف صحافی عمران ریاض خان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اب عمران ریاض اپنے گھر میں فیملی کے ساتھ ہیں۔ انہیں چاہئیے کہ جن دو صحافیوں نے ان کے لیے کوشش کی، ان کے لیے دعا کریں۔ اس کے علاوہ اگر عمران ریاض پر کسی شخص کا احسان ہے تو وہ میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے عمران ریاض کے لیے پولیٹیکل سٹینڈ لیا اور انہیں رہا کروایا۔ جو حقیقت ہے اس کا اعتراف کرنا چاہئیے اور آپ کو میاں صاحب کا شکرگزار ہونا چاہئیے۔ سیاسی رائے ضرور دیں لیکن جس نے آپ پر احسان کیا ہو اس کو ضرور یاد رکھیں۔