Get Alerts

کیاپاکستان اور اسرائیل کو تعلقات قائم کرلینے چاہیئں ؟

کیاپاکستان اور اسرائیل کو تعلقات قائم کرلینے چاہیئں ؟
پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا اور 1948 میں اسرائیل بطور یہودی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تھی۔دونوں ممالک کے قیام کا وقت اور نظریات قدرے مشترک ہیں۔ اسرائیل کی بنیاد بھی مذہب پر ہے ۔ اسرائیل میں بھی مذہبی شدت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کا حال بھی ویسا ہی ہے ۔
پاکستان نے مذہبی بنیاد،عرب ممالک سے اظہار یکجہتی اور آزادی فلسطین کی بناپر اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔ ملکی وبین الاقوامی حالات کے تناظر میں اس وقت کا فیصلہ درست تھا۔ ممالک کے فیصلے اپنے پنے ملکی اور قومی مفادات میں کیے جاتے ہیں ۔دنیا کا یہی اصول ہے۔

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت پاکستان کے مفاد میں تھا۔اقوام اور ممالک کا یہ بھی اصول ہے کہ ماضی کے فیصلوں کو ریویو کیا جائے۔نظر ثانی کی جائے۔فیصلے جامد نہیں کیے جاتے ہیں۔ وقت ،حالات اور بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئےملکی و قومی مفاد کے مدنظر رکھ کر فیصلوں پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
گزرے ہوئے 72 سالوں میں فلسطین کی آزادی آج بھی ادھوری ہے۔ اسرائیل کے سرحدی ممالک سمیت کئی دوسرے ملکوں کے آزادی فلسطین کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم ہیں۔جیسے پاکستان مسلہ کشمیر کی حمایت جاری رکھتے ہوئے بھارت سے سفارتی تعلقات قائم و دائم رکھتا ہے۔
فلسطین کے اندر دو ریاستی سوچ پنپ چکی ہے۔مطلب فلسطین کے اکثریتی عوام اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ۔اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ اسرائیل بطور ایک ملک اور ایک ریاست حقیقت ہے۔عرب ممالک   اسرائیل کےخلاف سردمہری بھی کب کی دم توڑ چکی ہےبلکہ سعودی عرب نئی سوچ اور سخت گیر ی سے نکل کر اپنے حقیقی روپ میںمنظر پر آرہا ہے۔
دنیا بدل چکی ہے۔کررونا کی آفت کے بعد کی دنیا مزید تبدیل ہوگی۔ پاکستان کو بدلنا پڑے گا۔72 سالہ فیصلے پر کھڑے رہنا محض ایک ڈھکوسلہ ہی رہ جائے گا۔حقیقت آج یہی ہے کہ ہم ڈھکوسلے ہی کر رہے ہیں۔ جس کے نتائج پاکستان کے عوام بڑھتی ہوئی غربت،بیماریاں ،بے روزگاری،مہنگائی ،بدامنی،دہشت گردی اور بے یقینی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
فیصلے سیاسی ہوتے ہیں ۔فیصلوں کو مذہبی شکل دینے اور عقیدہ بنانے والےملک وقوم کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہوتے ہیں۔کھلواڑ کے نتائج ریاست سےریاستی باشندوں کی لاتعلقی ،بیزاری ،نفرت اورفکری بغاوت کے طور برآمد ہوتے ہیں ۔
جس کی زندہ مثال ڈیوڈ آریل (سابقہ نام مولانا خلیل رحمن رحمی ) ہے۔صاحب! آپ ڈیوڈ آریل کا پاسپورٹ ضبط کرسکتے ہیں۔ڈیوڈآریل کو بھی گرفتار کرکے غائب کیا جا سکتا ہے۔مگر ہواؤں کو کیسے ضبط کریں گے۔ خیالوں پر سوچوں پر کیسے پابندی لگائیں گے۔مولانا خلیل رحمن رحمی تو پکا بندہ تھا۔ٹوٹ گیا نا۔فکر قید نہیں ہو سکتی ہے۔فکر پر پہرے بیٹھانے کی محنت بے کار ہے۔
جب سب بدل گئے ہیں تو آپ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔تعصب کو قانون مت بناؤ صاحب۔ نفرتوں کو عقیدہ نہ کہو۔ کوئی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ بہت ہوگیا۔جیو اور جینے دو۔ پاکستانی عوام کو مرضی سے سانس لینے دو۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کھینچی لکیر کو آج 72 سال ہوچکے ہیں۔آزادی فلسطین کے مسئلہ سے ریاستوں کے درمیان بظاہر یہ لکیر سیاسی تھی مگر دونوں جانب سے مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے باعث مذکورہ لکیر نے  شدید نفرت کی علامت بن کر پرورش پائی ہے۔وطنینیت کی بجائے مذہبی منافرت کا عنصر زیادہ غالب ہے۔نفرت کی لکیر سے نفرتیں ہی جنم لے رہی ہیں ۔
نفرتوں کے رواج سے خوشحالی آتی ہے اور نہ ملک ترقی کرتے ہیں ۔ پاکستان باوقار طریقے سے اس 72 سالہ نفرت کی لکیر کو توڑ کراسرائیل کے ساتھ بھی بھارت جیسے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی سعی کرے  کیوں کہ وقت بدل چکا ہے ۔اب ہمیں بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔نفرت کی آگ صرف اپنا ہی گھر جلاتی ہے۔کب تک ہم نفرتوں کی آگ میں جلتےرہیں گے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔