فلم 'میرے محبوب' کا بھارت اور آج کا ہندوستان دو الگ زمانے ہیں

اس دور میں ہندوستان میں بننے والی فلمیں اسی تصور کے جنون میں مبتلا نظر آئیں اور ہندوؤں اور دیگر برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان قریبی اور گرم جوشی کے تعلقات کو پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتی رہیں۔ یہ فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے تصور کے خلاف بیان کا ایک طریقہ تھا۔

فلم 'میرے محبوب' کا بھارت اور آج کا ہندوستان دو الگ زمانے ہیں

ہرمن سنگھ راویل کی ہدایت کاری میں بننے اور 1963 میں ریلیز ہونے والی 'میرے محبوب' ایک مسلم سماجی فلم تھی۔ فلم کی کہانی دو کرداروں کے گرد گھومتی ہے؛ انور حسین انور، جس کا کردار سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ راجندر کمار نے ادا کیا اور حسنہ بانو کا کردار کراچی میں پیدا ہونے والی 22 سالہ سادھنا شیوداسانی نے ادا کیا۔

ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شاعر انور اور ایک نوابزادی حسنہ دونوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اکٹھے تھے۔ یونیورسٹی کے آخری دنوں میں ان کا ٹاکرا ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں. تاہم انور حسنہ کی آنکھوں کی صرف جھلک دیکھ پاتا ہے، کیونکہ حسنہ روایتی برقعے پہنے ہوتی تھی۔ یونیورسٹی میں انور کے سب سے اچھے دوست، بندین رستوگی (جونی واکر) جو ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے اونچی ذات کے ہندو ہیں، نے مشورہ دیا کہ وہ الوداعی تقریب میں ایک نظم پڑھے جس سے شاید حسنہ تک رسائی کی امید پیدا ہو۔ انور وہ نظم پڑھتا ہے اور اس کی اثر انداز شاعری کے بعد حسنہ اس سے ملنے آتی ہے، لیکن ان کی ملاقات کے دوران دو افراد کے آنے سے حسنہ جلدی سے چلی جاتی ہے۔ قسمت، کہ ان دونوں کا تعلق ہندوستان کے مسلم ثقافتی دارالحکومت لکھنؤ سے تھا۔ چنانچہ واپسی کے سفر پہ دونوں ایک ہی ٹرین پہ سوار ہوتے ہیں، لیکن ایک بار پھر انور مردوں کے ڈبے میں اور حسنہ خواتین کے ڈبے میں۔

لکھنؤ پہنچنے کے بعد، انور کو ملازمت کی تلاش ہے، اور اس کے دوست، بندین نے مشورہ دیا کہ وہ ملازمت تلاش کرنے میں اپنے اثر و رسوخ کی درخواست کرنے کے لئے نواب بلند اختر (اشوک کمار) کے پاس جائے۔ ابھی انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ نواب صاحب حسنہ کے بھائی ہیں۔ وہ ان کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں اور انور کے لیے بطور میگزین ایڈیٹر ملازمت کا انتظام ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر نواب صاحب یہ درخواست کرتے ہیں کہ انور ان کی چھوٹی بہن حسنہ کو شاعری کی اصلاح میں مدد دیں۔ اس سے انور کے لیے حسنہ کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقلاتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور پھر جلد ہی، ان کے درمیان گہری دوستی قائم ہو گئی۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ لکڑی کے پردے کے مخالف اطراف میں بیٹھ کر حال دل بیان کرتے رہے، جبکہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ اپنی محبت کے کتنے قریب تھے۔

جس دن انور اس گھر میں منتقل ہوا جسے اس نے حال ہی میں کرائے پر لیا تھا، اسے پڑوس کے ایک گھر سے اپنی نظم گانے کی آواز سنائی دی، وہی نظم جو اس نے علی گڑھ کی الوداعی تقریب میں پڑھی تھی۔ انور کو اس سے زیادہ کوئی چیز حیران نہیں کر سکتی تھی۔ اسے یقین ہو گیا کہ یہ وہی لڑکی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اس نے جلدی سے بالکونی کا دروازہ کھولا۔ ستم ظریفی کہ اس موقع پر حسنہ کی سہیلی جہاں آرا (امیتا) کھڑکی میں نمودار ہوئی، جس کے گھر حسنہ ایک تقریب میں آئی تھی۔ انور نے جہاں آرا کو حسنہ سمجھ لیا اور اپنی بالکونی سے اسے محبت کے پیغام بھیجنا شروع کر دیے۔ تاہم اس کے فوراً بعد انور کو حقیقت کا پتہ چل گیا اور بالکونی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس سارے عرصے کے دوران، ان کے دوست، بندین رستوگی متوسط طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک پنجابی لڑکی سے عشق لڑاتے رہے، جسے اس کا امیر باپ کبھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ فلم شمالی ہندوستان میں اعلیٰ مسلم ثقافت کے شاندار ماضی کی یاد تازہ کرتی ہے، ایک ایسی ثقافت جو ختم ہونے کے قریب ہے۔ نواب بلند اختر بہت زیادہ مقروض ہیں لیکن اپنے وسائل سے بڑھ کے طرز زندگی برقرار رکھتے ہیں۔ انور کی بہن نجمہ (نمی) ایک سٹیج آرٹسٹ ہیں، اور انہوں نے اپنے پیشے سے وابستہ بدنامی کی وجہ سے خود کو انور سے دور کر لیا ہے، اس خوف سے کہ اس سے ان کے بھائی کی سماجی امیج اور کیریئر کے امکانات خراب ہو سکتے ہیں۔ اس کہانی میں ستم ظریفی کی ایک اور پرت اس وقت شامل ہو جاتی ہے جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نواب صاحب نجمہ سے محبت کرتے تھے، لیکن اس کے پیشے کی وجہ سے اس کے ساتھ تعلقات کو عام نہیں کر سکے۔

اگرچہ مسلم معاشرے میں طبقے اور حیثیت کے لحاظ سے گہری تقسیم نظر آتی ہے، لیکن فلم میں ایک ہندو بندین اور ایک مسلمان شخص انور کے درمیان گرم جوشی کی دوستی کو خوشگوار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ زوال پذیر مسلم تہذیب کے بارے میں پرانی یادوں کا وہ احساس اس فلم میں نظر آتا ہے، جس کا آج کے ہندوستان میں تصور کرنا مشکل ہے، جہاں مسلم مغل بادشاہوں سے نفرت قومی بحث میں سرایت کر چکی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس فلم کے ہدایت کار ایک ہندو فلم ساز ہیں اور دونوں مرکزی کردار ہندو اداکاروں نے ادا کیے ہیں، اس کے باوجود یہ ہر پہلو سے اعلیٰ مسلم ثقافت کے لئے احترام اور پرانی یادوں کا اظہار کرتی ہے۔ یہ فلم مشہور مسلم شاعر شکیل بدایونی کی شاعری سے مزین ہے، جس کے لیے موسیقار نوشاد علی نے موسیقی ترتیب دی ہے، جنہیں کے۔آصف کی ہدایت کاری میں بننے والی سب سے بڑی ہندوستانی فلموں میں سے ایک، 'مغل اعظم' کے لئے موسیقار اعظم کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ شکیل بدایونی کی با محاورہ شاعری، شمالی ہندوستان میں مسلم ثقافت کی بلندی کا گہرا احساس پیش کرتی ہے، جہاں اردو زبان اور شاعری نے فروغ پایا۔ اسی طرح نوشاد علی کی موسیقی مسلم بادشاہوں کی سرپرستی میں ترویج پانے والی موسیقی کے انداز کی عکاس ہے، جو ایک اور مسلمان گلوکار، محمد رفیع کی آواز سے مزین ہے۔

ہرمن سنگھ راویل کا مسلم اور ہندو اداکاروں، نغمہ نگار، موسیقار اور گلوکار کا انتخاب 1960 کی دہائی کے دوران جواہر لعل نہرو کے ہندوستان میں مختلف برادریوں کے درمیان باہمی احترام کا ثبوت ہے۔ اسی دور کی دیگر فلمیں 1947 میں تقسیم ہند کے بارے میں پرانی یادوں اور بعض اوقات غم و غصے کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس دور میں ہندوستان میں بننے والی فلمیں اس تصور کے جنون میں مبتلا نظر آئیں اور ہندوؤں اور دیگر برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان قریبی اور گرم جوشی کے تعلقات کو پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتی رہیں۔ یہ فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے تصور کے خلاف بیان کا ایک طریقہ تھا۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ یہ ماضی کی بات ہے، کیونکہ آج کے ہندوستان میں، جس کی قیادت مودی جی کی بی جے پی کر رہی ہے، نے ملک کو اپنے ہندوتوا کے نظریے سے رنگ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اب ایک سیکولر ریاست نہیں ہے – ایک ایسا خیال جس پر اس نے کبھی تقسیم کو مسترد کرنے کا دعویٰ کیا تھا – یعنی دو قومی نظریہ – ایک ایسا خیال جو بالآخر تقسیم کا سبب بنا۔

جناح صاحب نے گاندھی جی کی تحریک خلافت کی حمایت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ہندوستان کی سیاست میں مذہب متعارف ہو جائے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گاندھی جی نے ایک سیکولر ہندوستان بنایا جبکہ جناح صاحب نے ایک مسلم ریاست بنائی۔ یہ دونوں ریاستیں ان رہنماؤں کے اصل سیاسی مؤقف کے بالکل برعکس تھیں۔ 76 سال بعد جناح صاحب کا پاکستان سیاسی اور ریاستی معاملات میں مذہب کے کردار پر نظرثانی کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے جبکہ گاندھی جی کے بھارت میں ہندوتوا کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ کسی کے کردار کو اس کے دعوؤں کے برعکس ہی پرکھا جا سکتا ہے تو لامحالہ ہندوستان کے سیکولرازم کے دعوے کو آج کے حالات کی روشنی میں ہی دیکھا جائے گا۔