Get Alerts

فیض حمید انوکھا کردار نہیں، 77 سالوں سے جاری نظام کی پیداوار ہے

جنرل فیض حمید بھی اس نظام کی پیداوار ہے جس نے جنرل احتشام، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل پاشا یا جنرل رضوان جیسے کرداروں کو جنم دیا۔ ہمارے سیاست دان بھی کمال کرتے ہیں، پہلے فوجی جرنیلوں کو توسیع دیتے ہیں، اور پھر رونا روتے ہوئے کہتے ہیں ہم سے ڈبل گیم کھیلی گئی۔

فیض حمید انوکھا کردار نہیں، 77 سالوں سے جاری نظام کی پیداوار ہے

آج کل پاکستان میں اگر مگر کی گفتگو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے کہ اگر یہ ہو جاتا تو شاید یہ نہ ہوتا اور نہ ہی دوسرے آئین کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی سقوط ڈھاکہ ہوتا اور نہ ہی آج ہم فیض حمید کے کورٹ مارشل کے متعلق بات کر رہے ہوتے۔

شہر اقتدار کنٹینروں کا جنگل بن چکا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی طرف جانے والی شاہراہوں پہ کنٹینروں کی بھرمار ہے۔ یہ بڑے بڑے کنٹینر اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں جو شہر کے آخری منطقے میں اپوزیشن جماعت نے جلسے کا طبل بجا رکھا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟ آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن ون ٹو ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمانڈر کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کیلئے اشتعال دلانے، اکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں فوج میں ان کا ٹرائل ٹو ون ڈی کے تحت ہو سکتا ہے۔

جب خان صاحب کے پاس اقتدار کی باگ ڈور تھی تب ظفر مہدی کے بیٹے حسن عسکری نے جنرل باجوہ کو خط لکھا اور اس خط کی پاداش میں انہیں فوجی عدالت نے سزا سنائی۔ ایک شہری ادریس خٹک کا بھی کورٹ مارشل ہوا اور اسے 14 برس کی سزا سنائی گئی۔ جنرل باجوہ کے 6 سالہ دور میں مجموعی طور پر 25 سویلین کا کورٹ مارشل ہوا۔

ہم جیسے جمہوریت پسند دوست کل بھی اور آج بھی کسی بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونے کو غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں۔

29 اکتوبر 1958 کو محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب سے ملاقات کر کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا اور چھ سال بعد ایوب خان کے مقابل صدارتی چناؤ میں نعرہ بلند ہوا کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابل قبول ہے۔ 26 مارچ 1971 کو بھٹو صاحب نے کراچی ایئرپورٹ پر کہا تھا کہ 'خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا' اور جولائی 1977 کو کیا ہوا اور پھر 1979 میں بھٹو صاحب نہیں بچ پائے۔

18 اکتوبر 1999 کو بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کی بغاوت کو نواز شریف سے نجات قرار دیا اور مئی 2006 میں بے نظیر کو نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنا پڑے۔

اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں کا سہارا لیتے ہیں اور مخالف سیاست دان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ منظور نظر کو اسٹیبلشمنٹ سے دور کیسے رکھا جائے۔ ہمارے سیاست دان تاریکی میں مقتدرہ کی چوکھٹ پر دست بستہ حاضری دیتے ہیں اور نظرِ التفات کے متمنی رہتے ہیں۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یادش بخیر، 23 فروری 1951 کو کسی خفیہ اجلاس میں برسرِ اقتدار حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور تختہ الٹنے کے جرم میں ہمارے بے بدل شاعر فیض احمد فیض کو بھی شریکِ جرم ٹھہرایا گیا تھا۔ حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے کو جس کو بعد ازاں راولپنڈی سازش کیس کہا گیا، اس سازش میں ملوث 11 فوجی افسران کے ساتھ 5 سویلین کو بھی سزائیں ہو سکتی ہیں، تو پھر ایوب خان اور سکندر مرزا کے خلاف کیوں مقدمہ نہیں چلایا گیا؟

اس سے قبل 1945 میں ایوب خان کو برما کے محاذ پر جنگ میں بزدلی دکھانے پر کمان سے ہٹا کر فارغ کیا گیا اور پاکستان بننے کے بعد عبدالرب نشتر کی رپورٹ پر جناح صاحب نے کورٹ مارشل کا حکم دیا۔ انکوائری افسر موسیٰ خان تھا جنہیں بعد ازاں 1959 میں ایوب خان نے فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ دسمبر 1949 کو پاکستانی فوج کے نامزد سربراہ میجر جنرل افتخار خان کی ہوائی حادثے میں پراسرار موت کی تفصیلات تاحال پردے میں ہیں۔

یوں سیاست کے میدان میں اسٹیبلشمنٹ کی پیش قدمی بڑھتی گئی۔ 1971 کا تاریخی سانحہ فوجی شکست تھا اور سیاست دانوں کی کوتاہی کا ثبوت یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد نہ کروا سکے۔ اگر ان سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا جاتا تو شاید دوبارہ فیض حمید جیسے آئینی حدود اور حلف کو پائمال کرنے والے کردار جنم نہ لیتے۔

 5جولائی 1977 کا سورج طلوع ہونے سے قبل پاکستان میں جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور ملک پر ایک اور مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کی آمریت میں سیاست تباہ ہوئی اور مذہب کے نام پر بدترین فسطائیت قائم کر دی گئی۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ پھر چھوٹے چھوٹے جمہوری نخلستانوں کے بعد ملک آمریت کے طویل ریگ زاروں میں اپنی منزل کھوٹی کرتا رہا۔

اس طرح اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے بغاوت کر دی۔ آج بھی سیاست دان شکایتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ خفیہ ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔ اب تو عدلیہ کے ججوں نے بھی ایسی ہی شکایتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔

پاکستان کے آئین کی دفعہ 244 میں واضح لکھا ہوا ہے کہ فوجی افسران اور فوج کے جوانوں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

جنرل فیض حمید بھی اس نظام کی پیداوار ہے جس نے جنرل احتشام، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل پاشا یا جنرل رضوان جیسے کرداروں کو جنم دیا۔ ہمارے سیاست دان بھی کمال کرتے ہیں، پہلے فوجی جرنیلوں کو توسیع دیتے ہیں، اور پھر رونا روتے ہوئے کہتے ہیں ہم سے ڈبل گیم کھیلی گئی۔