پاکستان پیپلزپارٹی نے طالبان کی جانب سے امریکہ سے مذاکرات کے دوران بینظیر بھٹو قتل کیس میں رہا ہونے والے 5 ملزمان میں سے 2 کی حوالگی کے مطالبے کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ جو بینظیر بھٹو قتل کیس کی پیروی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قابل اعتماد اطلاعات ہیں کہ 6 ماہ قبل طالبان نے پاکستان میں امریکہ سے مذاکرات کے دوران اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جو بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اعتزاز شاہ اور حسنین گل دونوں حملہ آوروں کے مبینہ سہولت کار تھے کیونکہ حملہ آور راولپنڈی میں واقع گھر میں موجود تھے اور انہوں نے حملے سے ایک روز قبل حملہ آوروں کے ساتھ حملے کے مقام کا دورہ کیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ طالبان نے اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی اور حوالگی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو کوئی تحریری درخواست جمع نہیں کروائی لیکن طالبان نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 برس قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں 5 ملزمان کو بری کر دیا تھا جن میں اعتزاز شاہ اور حسنین گل بھی شامل تھے۔ تاہم ملزمان دیگر کیسز میں ملوث ہونے کی وجہ سے تاحال جیل میں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کی رہائی ان کے اور ان کی جماعت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھی کیونکہ ملزمان نے عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا اور ان کے گھر سے حملہ آوروں کے کپڑے، جوتے اور جسم کے حصے برآمد ہوئے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس حوالے سے غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ طالبان نے پاکستان کے ذریعے امریکہ سے ہونے والے مذاکرات میں اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان رپورٹس کی تصدیق کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ رپورٹس سچ نکلیں تو اس سے کیس کے کچھ نامعلوم پہلوؤں کا انکشاف ہو گا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر طالبان نے واقعی اعتزاز شاہ اور حسنین گل کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا تو اس سے بنیظیر بھٹو کے قتل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی تصدیق ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو کو الیکشن مہم کے دوران اس وقت قتل کیا گیا جب وہ لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں، ان پر خودکش حملہ اور فائرنگ کی گئی تھی۔
اُس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے ٹی ٹی پی کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا، جسے ٹی ٹی پی کی جانب سے مسترد کیا گیا تھا۔
بعدازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگست 2017 میں فیصلہ سناتے ہوئے ٹی ٹی پی کے 5 مشتبہ ملزمان کو رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جبکہ 2 پولیس افسران کو بینظیر بھٹو کو فراہم کردہ ناقص حفاظتی انتظامات اور مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے جائے وقوع کو فوری دھونے کے جرم میں 17 سال قید کی سزا سنائی تھی۔