سرکاری ہسپتال بدل گئے!!

سرکاری ہسپتال بدل گئے!!
اقراء کو بنا کوئی نخرہ کئے ڈاکٹر کے پاس اپنی ماہانہ اپوائنمنٹ پر جاتا دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ اقراء کو گذشتہ 4 سال سے پولی سسٹک اووری سنڈروم، جسے عام زبان میں پی سی او ایس کہا جاتا ہے، کا مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے اسے ناصرف اپنا روٹین چیک اپ کرانا پڑتا ہے بلکہ آئے روز ٹیسٹ بھی کرانا پڑتے ہیں مگر مجال ہے کہ وہ بنا کسی کے زور ڈالے ہسپتال کا رخ کرے۔ مرض بھی کچھ ایسا ہے جس کا اب تک کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہو پایا لہذا نت نئے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے کہ جانے کس سے شفا مل جائے۔

''ہر بار ڈاکٹر کوعلامات بتاتے ہوئے میری جان جاتی ہے۔ ہر دفعہ شروع سے آخر تک ساری ہسٹری بتانا پڑتی ہے اور صرف یہ ہی نہیں، اتنی ساری نسخے کی پرچیاں اور میڈیکل رپورٹس سنبھال کر رکھنا میرے لئے وبال جان بن چکا ہے" وہ ہمیشہ شکایت کرتی تھی مگر آج سورج کہاں سے طلوع ہوا، میں نے بے ختیار پوچھا۔

اقراء ہمارے پڑوس میں ہی رہتی ہے اور اکثر پڑھائی سے متعلق میری مدد لینے آتی ہے۔

"کیا آپ کو نہیں پتا کہ آخری بار میں جس ڈاکٹر کے پاس گئی وہاں سارے ہسپتال کا سسٹم ہی آن لائن ہو گیا ہے، اب مجھے نہ تو اپنی ساری میڈیکل کی تفصیل بتانا پڑے گی اور نہ ہی رپورٹس لے کر جانا پڑیں گی۔ میں بس اپنا میڈیکل ریکارڈ نمبر بتاتی ہوں اور میری ساری میڈیکل ہسٹری ڈاکٹر کے سامنے کھل جاتی ہے، ورنہ تو خود ڈاکٹر نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ساری ڈا ئیگناسس کا ٹریک رکھنا کو ئی آسان کام ہے کیا" وہ ہسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے متعلق بات کر رہی تھی جسے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے حکومت پنجاب کی ہدایت پر وضع کیا ہے۔

"اس آن لائن سسٹم کے ذریعے مریض کا تمام ڈیٹا آسانی سے مل جاتا ہے۔ مریض کی میڈیکل ہسٹری کیا ہے، موجودہ بیماری کون سی ہے، کن کن ڈاکٹرز نے ٹریٹ کیا ہے اور کون کون سی ادویات دی ہیں، کون کون سے ٹیسٹس کیے اور ان کی کیا رپورٹس آ ئیں سب کچھ سسٹم میں موجود ہوتا ہے۔ ان معلومات کی مدد سے ڈاکٹر با آسانی مریض کا معا ئنہ کرتے ہیں اور متعلقہ علاج اور ادویات فراہم کرتے ہیں،" اس نے بتانا جاری رکھا۔

اقراء سے کی گئی اس مختصر گفتگو نے جہاں مجھ میں ایچ ایم آئی ایس سے متعلق مزید جاننے کا تجسس پیدا کیا وہیں مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ ٹیکنالوجی خاص طور پر آئی ٹی نے کس قدر ہماری زندگی کے ہر شعبے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ اقرا کا مسئلہ اپنی میڈیکل ہسٹری کو یاد رکھنا اور ڈاکٹر کو بتانا تھا، نہ جانے کتنے ایسے لوگ اس ڈر سے ڈاکٹر کے پاس ہی نہ جاتے ہوں گے۔ کتنے ہی لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو کون سی بیماری لاحق ہے یا ڈاکٹر کو اپنی تکلیف کس طرح بیان کرنی ہے۔

ماہ نور، جو کہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب ہاوٴس جاب کر رہی ہے، سے گفتگو کرنے پر معلوم پڑا کہ ایچ ایم آئی ایس سسٹم نے ڈاکٹر اور مریض کے درمیان اس رکاوٹ کو یکسر دور کردیا ہے۔

اس نے مجھے بتایا کہ کئی دفعہ میڈیکل ہسٹری نامعلوم ہونے کی وجہ سے غلط انجیکشن لگنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ مگر اس نئے سسٹم کی مدد سے اس طرح کی غلطیوں سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ڈاکٹروں کو علاج کی فراہمی میں مدد ملتی ہے بلکہ ڈاکٹر اور مریض میں اعتماد کا رشتہ بھی قا ئم ہوتا ہے۔

ہسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم ہسپتال کے انتظامی نظام کو تیزی سے انجام دینے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس سسٹم کی بدولت ڈاکٹر باآسانی اپنی کمپیوٹر اسکرین پر مریض کی میڈیکل ہسٹری کو مد نظر رکھتے ہوئے ادویات اور ٹیسٹ تجویز کر سکتے ہیں۔ اس نئے سسٹم نے مکمل طور پر ہسپتال کے بوسیدہ کاغذی نظام کی جگہ لے لی ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے لیبارٹریز بھی خودکار نظام کے تحت آگئی ہیں۔

اب جیسے ہی ڈاکٹر کوئی ٹیسٹ آرڈر کرتا ہے تو اس کا ڈیٹا لیبارٹری تک چلا جاتا ہے، لیبارٹری میں ٹیسٹ سیمپلز پر بار کوڈز لگائے جاتے ہیں تاکہ سیمپل کو ٹریک کیا جاسکے اور کسی بھی قسم کی غلطی سے بچا جا سکے۔ ٹیسٹس کی رپورٹس بھی الیکٹرانک شکل میں ہی ڈاکٹر اور مریض کو موصول ہوجاتی ہیں اور ساتھ ہی ان رپورٹس کا اندراج مریض کے الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ میں بھی ہو جاتا ہے۔

ایچ ایم آئی ایس سسٹم کے تحت مریضوں کی مزید آسانی کے لیے ہر مریض کے ڈیٹا تک الیکٹرانک ریکارڈ نمبر کے علاوہ اس کے شناختی کارڈ نمبر یا رجسٹرڈ فون نمبر کے ذریعے بھی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ہسپتال مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اب تک دو مرحلوں میں جناح ہسپتال میں انسٹال کیا جا رہا ہے جبکہ مزید 16 ہسپتالوں میں یہ سسٹم اگلے چند سالوں میں فعال ہوجائے گا۔ ابتدائی طور پر یہ سسٹم جوکہ پی آئی ٹی بی کی طرف سے بلامعاوضہ تمام سرکاری ہسپتالوں کے لیے دستیاب ہے، پنجاب کے ہسپتالوں میں انسٹال کیا جائے گا تاکہ اس سے بھرپور طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے اور پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں کا نظام سینٹرلائزڈ کیا جا سکے۔ اس سے ایک ہسپتال میں انٹر کیا گیا مریض کا ڈیٹا دوسرے ہسپتال میں بھی دیکھا یا اپڈیٹ کیا جا سکے گا۔

علاوہ ازیں اس سسٹم کے تحت فارمیسی کا نظام بھی خودکار بنا دیا گیا ہے جس کی مدد سے ادویات کی دستیابی، ایکسپائری کی تاریخ وغیرہ سے متعلق اپڈیٹس سٹاف کو موصول ہوجاتی ہیں اور وہ اس کے مطابق عمل درآمد کرسکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس سسٹم کو مزید بہتر کیا جائے گا اور ضرورت کے مطابق تبدیلیاں بھی کی جا سکیں گی۔

میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ اس سسٹم کے نفاذ اور استعمال کو یقینی بنانے کیلئے جلد از جلد تمام ضروری اقدامات کئے جائیں تاکہ روایتی نظام کا خاتمہ کیا جا سکے اور عوام جدید سہولیات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔

مصنّفہ منٹ مرر سے وابسطہ ہیں۔ اس سے قبل دنیا نیوز، جی این این، دی نیشن اور ڈیلی ٹائمز کے ڈیجیٹل ڈیسک سے منسلک رہ چکی ہیں، سوشل ایشوز اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔