تقریباً ایک صدی قبل امریکی سپریم کورٹ کے جج اولیور وینڈیل ہومز ایک صبح ٹرین کے ذریعے واشنگٹن ڈی سی جا رہے تھے۔ جب کنڈکٹر نے اُن سے ٹکٹ مانگا تو ہومز ٹکٹ کو جیب میں اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگے۔ وہ تجسس اور حیرت میں تھے کہ ٹکٹ کدھر گیا۔ اسی دوران کنڈکٹر نے انہیں تسلی دی کہ ہومز صاحب اپنے ٹکٹ کی فکر نہ کریں، مل جائے گا تو دکھا دیجئے گا، ویسے بھی ہم سب آپ کو جانتے ہیں۔ آپ امریکہ کے نامور جج ہیں۔ کنڈکٹر کی بات سن کر امریکی جج نے جواب دیا؛ بات صرف ٹکٹ کی نہیں ہے، مجھے یہ بھی تو جاننا ہے کہ میں جا کہاں رہا ہوں۔
امریکہ کو گالیاں دینے والوں کے لیے عرض ہے کہ امریکہ کی ترقی اور دنیا میں طاقتور ترین ملک کی وجوہات میں سے ایک اہم ترین وجہ امریکہ میں انصاف کا نظام ہے۔ یہ تحریر لکھنے سے قبل جب میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ وزٹ کر رہا تھا تو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی سپریم کورٹ نے اپنی ویب سائٹ کو پرکشش اور قابل توجہ بنانے کے لیے امریکی شہریوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے گیمز کارنر رکھے ہوئے ہیں۔ ان گیمز کو ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے اور آن لائن بھی کھیلا جا سکتا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر 34 سال تک انصاف فراہم کرنے والے چیف جسٹس جان مارشل کی پینٹنگ سے متعلقہ گیم بھی موجود ہے جس میں بچوں کو (Spot the difference) یعنی فرق تلاش کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہے امریکہ جو سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ کے پیچ پر بچوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اُنہیں مختلف گیمز کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔ امریکی مشہور جج انتھونی کینڈی نے ایک بار کہا تھا؛ 'اگر بچے آئین کو نہیں سمجھتے ہیں تو وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری حکومت کیسے کام کرتی ہے یا امریکہ کے شہری ہونے کے ناطے ان کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔'
پاکستان میں عام بچے تو کیا عام شہریوں اور کسی حد تک تعلیم یافتہ شہریوں کو بھی اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا علم نہیں ہے۔ پاکستان کا آئین بننے کے بعد یہ امر لازمی تھا کہ آئین کو آسان لفظوں میں تحریر کر کے شہریوں کو فراہم کیا جاتا۔ گھروں میں، دکانوں پر، تعلیمی اداروں اور نجی و سرکاری دفاتر میں دستور کی کاپیاں موجود ہوتیں۔ بچوں کو سکولوں میں پڑھایا جاتا، شہری آئین کی ایک ایک شق سے پوری طرح آگاہ ہوتے۔ اس کام کی انجام دہی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان کے تمام شہری اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کی وجہ سے اندھے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اگر طلبہ کو ان کے حقوق کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتیں، بطور شہری انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا تو حالات آج بہت حد تک مختلف ہوتے۔
شیخ ابراہیم ذوق کا شعر ہے؛
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں مُلّا
ان کو مے خانے میں لے آؤ، سنور جائیں گے
ذوقؔ صاحب اگر آج زندہ ہوتے تو انہیں پوچھتے کہ صاحب ہم بے سمت قوم کو بھی کوئی راستہ دکھاؤ۔ ہم کدھر کو جائیں کہ سنور جائیں، شعور پائیں۔
امریکی نظام انصاف کی بات ہو رہی تھی۔ امریکی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر عدالت کے جن ججز کی تصاویر اور اُن کا تحریری تعارف موجودہے اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تصویر بھی اتنی ہی بڑی ہے جتنی باقی ججز کی تصاویر ہیں۔ جبکہ امریکی سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کی سنگل یا سولو تصویر موجود نہیں ہے۔ ویب سائٹ پر جو اکلوتی بڑی تصویر دستیاب ہے وہ تمام ججز کا گروپ فوٹو ہے۔ اس گروپ فوٹو کی سب سے کمال خوبی یہ ہے کہ تصویر میں موجود تمام ججز مسکرا رہے ہیں۔ یہ وہ مسکراہٹ ہے جو کسی بھی شخص کے چہرے پر اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ان کے ضمیر پر بوجھ نہ ہو۔
اگر ہم پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کی ویب سائٹس وزٹ کریں تو ہماری عدلیہ کے ججز کے چہروں پر بھی مسکراہٹ موجود ہے مگر امریکی ججز اور ہمارے جج صاحبان کی مسکراہٹوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ پاکستان میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے تقریباً 134 جج صاحبان عوامی ٹیکسوں سے ماہانہ 159 ملین روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگی کاریں، 500 لیٹر پیٹرول، 65 ہزار سے زائد رہائشی کرایہ، تعلیم مفت، علاج مفت، سفر مفت، بلوں کی ادائیگی سے استثنیٰ، فون مفت، پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیاں، یومیہ الاؤنس، مہنگائی الاؤنس، مہمان الاؤنس اور دیگر بے شمار مراعات تنخواہوں کے علاوہ ہیں۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے دونوں مسکراہٹوں کا فرق! تاہم ہماری عدلیہ کے ججز کی مسکراہٹوں میں مزید اضافہ کرنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج ماہانہ تنخواہ، سپیریئر جوڈیشل الاؤنس، قیام گاہ کے کرائے اور دیگر مراعات کی مد میں پاکستان کے خزانے سے تقریباً 17 لاکھ روپے وصول کرتا ہے اور اگر وہ چیف جسٹس ہے تو یہ تنخواہ 18 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ جبکہ بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے اور اگر اس میں دیگر تمام مراعات بھی شامل کر لی جائیں تو اس صورت میں بھی وہ 3 لاکھ سے زیادہ نہیں بنتی۔
سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کو اتنی مراعات دینے کے باوجود 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ایک جج کی ماہانہ تنخواہ، الاؤنس اور مراعات عام آدمی کی ماہانہ آمدن سے 100 گنا زیادہ ہے۔ یہی موازنہ اگر امریکہ سے کیا جائے تو امریکی سپریم کورٹ کا جج ماہانہ بنیادوں پر 2 لاکھ 40 ہزار ڈالر وصول کرتا ہے جو عام امریکی شہری کی ماہانہ آمدنی سے محض 4 گنا زیادہ ہے۔
امریکہ کے نظام انصاف کو سلام ہے تاہم ہم امریکہ کو گالیاں ہی دیتے رہیں گے۔ اس کا بہت اجر و ثواب ہے۔ رہی بات پاکستان میں کسی غریب، مجبور، بے کس کو فوری انصاف کی فراہمی کی تو ان لوگوں کا ذہن تو ہم پہلے ہی اس طرح کی باتوں سے بنا چکے ہیں؛ روتے کیوں ہو، روز محشر تمہیں انصاف ملے گا کیونکہ دنیا میں ہی عدالت سے انصاف ملنے کا رواج صرف مغربی ممالک اور امریکہ جیسے ملکوں میں رائج ہے!