جدید ریاست بننے کے لیے پاکستان کو نئے سرے سے آغاز کرنا ہو گا

ایک بار جب پاکستان نے خود کو ایک جدید ریاست کے طور پر دوبارہ تصور کرنے کا یہ مشکل کام انجام دے لیا تبھی وہ اپنی سیاسی سمت کا تعین کر سکے گا اور اس کے بعد ہی قومی مفاد کی وضاحت ممکن ہو سکے گی جب اس نے اپنے آپ کی وضاحت کر لی ہو یعنی وہ ایک ملک ہے یا مقصد!

جدید ریاست بننے کے لیے پاکستان کو نئے سرے سے آغاز کرنا ہو گا

امریکہ کے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ساجد تارڑ کے ساتھ اپنے حالیہ آن لائن انٹرویو میں میں نے ایک سوال اٹھایا کہ پاکستان کے ساتھ دنیا کا مسئلہ کیا ہے؟ منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے تارڑ نے بالٹی مور یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی ہیں اور 2024 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلیکن پارٹی کی انتخابی مہم کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان کے بارے میں مغرب کے خدشات کی وضاحت کی۔

ان کے مطابق پاکستان کے حوالے سے مغرب کو چار اہم مسائل درپیش ہیں؛ جغرافیائی محل وقوع، جوہری ہتھیار، ڈبل گیمز اور طالبان کی حمایت۔ پاکستان نے اپنے جغرافیائی محل وقوع کو معمولی فوائد کے لیے استعمال کیا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں کے بغیر پاکستان برما اور نیپال کی طرح عالمی سطح پر غیر اہم ملک ہوتا۔ امریکہ میں پاکستان کی وجہ شہرت ایک دوغلے اور ناقابل اعتماد عالمی شراکت دار کی ہے۔ یہ تاثر اس کی بدعنوان حکمران اشرافیہ کے اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، جس کی توجہ امریکہ کی جانب سے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ فنڈز سے ٹورنٹو، لندن اور دبئی میں جائیدادیں حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ ان کے مرہون منت مغرب اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے معاملات کو قوم کے بجائے افراد کے ذاتی مفادات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مزید براں پاکستان کی جانب سے طالبان کی مبینہ حمایت نے امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، ایک ایسی قوت جس کا امریکہ نے دو دہائیوں سے مقابلہ کیا اور جس کے نتیجے میں انہیں افغانستان سے برائے نام نتائج کے ساتھ انخلا کرنا پڑا۔

تارڑ نے ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں پڑتی دراڑ پر روشنی ڈالی۔ بڑھتی ہوئی ہندوستانی معیشت اور عالمی جنوب، خاص طور پر بحرالکاہل کے خطے میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ اس سے پہلے بھارت نے امریکی خواہش کے برعکس لداخ میں چین کے ساتھ فوجی تنازعہ میں الجھنے سے گریز کیا اور بعد ازاں ہندوستان کی یوکرین جنگ میں ملوث ہونے سے دستبرداری نے امریکی تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ امریکہ کا ساتھ دینے کے برعکس، بھارت اپنی ریفائنریوں میں روسی تیل کی پروسیسنگ اور خفیہ طور پر اسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے میں مصروف ہے، جس سے اس کی اپنی اور روسی معیشت دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان پیش رفتوں نے جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورہ امریکہ کے لئے راہ ہموار کی، جس کو امریکی انتظامیہ نے جمہوری طور پر منتخب رہنما کے بجائے ایک فوجی جنرل کے ساتھ بات چیت کرنے پر تنقید کے باوجود اہمیت دی ہے۔

ساجد تارڑ نے پاکستان میں فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کمزور منتخب حکومت کی پیش گوئی کی ہے۔ وہ ایک قابل ٹیکنوکریٹ حکومت کی وکالت کرتے ہیں جو موجودہ کابینہ سے مختلف ہو، کیونکہ ان کے مطابق موجودہ کابینہ بی گریڈ ہے۔ اس کابینہ کے ارکان کو دہری شہریت نہیں رکھنی چاہئیے اور ان کے کاروبار اور خاندانوں کی جڑیں پاکستان سے وابستہ ہونی چاہئیں۔ ترقی کی لیے پاکستان کو اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے کر اپنے آپ کو ایک قومی ریاست کے طور پر از سر نو ترتیب دینا ہوگا اور اس کا دارالحکومت کوئٹہ منتقل کرنا ہو گا۔

میرا بھی یہی خیال ہے۔ دارالحکومت کی منتقلی بے شمار فوائد رکھتی ہے۔

اس سے بلوچ عوام کی شکایات دور ہوں گی اور مغربی ہمسایہ ممالک، ایران اور افغانستان کے ساتھ تزویراتی طور پر قریبی تعلقات کو فروغ ملے گا، جہاں مستقبل میں توانائی کے وسائل اور تجارتی راستے واقع ہیں۔ دارالحکومت کو ہندوستانی سرحدوں سے دور منتقل کرنا دفاعی نقطہ نظر سے بھی فائدہ مند ہوگا۔ مزید براں یہ اقدام پاکستان کے آبادیاتی اور ثقافتی منظرنامے کو نئی شکل دینے اور موجودہ دارالحکومت اسلام آباد سے وابستہ عصبیت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا، جو بدعنوانی اور بیڈ گورننس کا مترادف بن چکا ہے۔

قومی اہمیت کا یہ بڑا اقدام تمام سیاسی قوتوں، اسٹیبلشمنٹ اور یقیناً بلوچ عوام کی رضامندی کے بغیر نافذ العمل نہیں ہو سکتا۔ اس پہ بلوچ سیاسی قیادت اور عوام کو یہ تشویش ہو سکتی ہے کہ صوبہ بلوچستان میں ملک کے دوسرے علاقوں سے آبادی کی آمد کے باعث مقامی آبادی کمزور ہو جائے گی۔ ان خدشات کو آئین میں ضروری ترامیم کے ذریعے مقامی بلوچ آبادی کے حقوق اور مفادات کو یقینی بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ملک کے معاملات میں پنجابیوں کا غلبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

یہ لکھتے ہوئے ہنری کسنجر کے خیالات بھی ذہن میں آتے ہیں کہ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ایک ملک ہے یا کوئی مقصد۔ پاکستان کو ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے لئے موثر ادارے قائم کرنے اور سمت واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی مقامی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک جدید ریاست کے طور پر کام کرنے کے لئے ایک نقطہ نظر واضح کرنا چاہئیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کچھ اصلاحات ضروری ہیں، جن میں سب سے پہلے مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے خیالات اور نظریات کو ترک کرنا ہے، تا کہ قوم اپنی ثقافتی طاقت کے دھاروں پر آزادانہ طور پر چل سکے جو کسی بھی معاشرے کے لیے ایک فطری راستہ ہے۔

یہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سستے مزاحیہ ٹی وی شوز میں قومی ثقافت کا مذاق اڑانے سے کوئی تعمیری مقصد حاصل نہیں ہوا ہے۔ فلم جیسے ثقافتی اداروں کو نچلے درجے کے افراد کے حوالے کرنے کا نتیجہ صرف ناقص فلموں کی صورت میں نکلا ہے۔ اسی طرح تعلیم کو نجی ہاتھوں میں دینے سے انتہائی ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ ساجد تارڑ کے اس سوال کا جواب بھی ہے جو مجھ سے اور ناظرین سے انہوں نے کیا کہ پاکستانی یونیورسٹی گریجویٹس اہم عالمی اداروں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکے، جبکہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹس گوگل اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں؟

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دو دہائیوں سے قریبی وابستگی کے باعث میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ بنیادی تعلیم 12ویں جماعت تک ہے اور اعلیٰ تعلیم بنیادی حق نہیں ہے۔ اس تک رسائی صرف ان لوگوں کے لیے ہونی چاہئیے جو اس کے اہل ہیں اور انہیں یہ مفت فراہم کی جانی چاہئیے۔ جو اس کے اہل نہیں ہیں انہیں پولی ٹیکنک اداروں کی طرف راغب کیا جائے، جہاں وہ عملی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ پالیسی انہیں بظاہر بے کار اعلیٰ تعلیم کی ڈگریوں کے ساتھ مایوس کن زندگی گزارنے کے بجائے اپنے منتخب کردہ پیشوں میں پھلنے پھولنے کے قابل بنائے گی۔

ایک بار جب پاکستان نے خود کو ایک جدید ریاست کے طور پر دوبارہ تصور کرنے کا یہ مشکل کام انجام دے لیا، تبھی وہ اپنی سیاسی سمت کا تعین کر سکے گا اور اس کے بعد ہی قومی مفاد کی وضاحت ممکن ہو سکے گی جب اس نے اپنے آپ کی وضاحت کر لی ہو یعنی وہ ایک ملک ہے یا مقصد! ایسا ہونے کے بعد ہی پاکستان ایک حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے قابل ہو گا جس میں وژن واضح ہو۔

یقیناً ثقافتی اور تعلیمی اداروں کی درستگی کے بغیر ان اہداف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام ہمارے لیے امریکی نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیں خود کرنا ہو گا۔