الجزیرہ کی غیر جانب دار رپورٹنگ خاموش: قطری فٹبال ورلڈ کپ تعمیرات ہر ماہ 50 مزدور نگلنے لگیں

الجزیرہ کی غیر جانب دار رپورٹنگ خاموش: قطری فٹبال ورلڈ کپ تعمیرات ہر ماہ 50 مزدور نگلنے لگیں

قطر میں اس وقت ایک عظیم شان تعمیراتی کام جاری ہے۔ ہزاروں مزدور،  سینکڑوں بھاری مشینیں، اور ایکڑوں پر پھیلی تعمیراتی سائٹ۔  یہ سب اس لیئے جاری ہے کہ  قطر آئندہ سال فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ ورلڈ کپ کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیئے اس وقت بیرون ممالک سے لائے گئے مزدوروں کی محنت جنگل میں منگل کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ تاہم اس سب خوشنمائی کے پیچھے موت کا ننگا ناچ ہے جو اکیسویں صدی میں مزدوروں کے بد ترین استحصال کی ایک مثال ہے۔  یہ منصوبہ ہر مہینے پچاس کے قریب مزدوروں کو نگل جاتا ہے۔ اسے  ذرائع ابلاغ نے یوں تشبیہہ دی ہے کہ فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کیلئے ٹورنامنٹ سے منسلک بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے ایشیائی مزدوروں کی ہلاکتوں کے باعث یہ فٹ بال ورلڈ کپ عملی طور پر مزدوروں کی لاشوں پر منعقد کیا جائے گا۔ خبررساں ادارے گارڈین کی رپورٹ کے مطابق قطر میں ہرہفتے اوسطاً 12 تارکین وطن محنت کش ہلاک ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے 6500 سے زائد تارکین وطن محنت کش ہلاک ہو چکے ہیں۔


ہلاک ہونے والوں میں سے اکثریتی محنت کش ورلڈ کپ کیلئے تعمیر ہونے والے 7 نئے فٹ بال سٹیڈیم اور ورلڈ کپ سے منسلک دیگر تعمیراتی منصوبوں پر کام کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔


قطری حکومت کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر اموات فطری وجوہات کی وجہ سے ہوئی ہیں لیکن غیر جانبدار ذرائع کے مطابق کام کے مقامات پر سخت گرمی، حادثات، کیمپوں میں بھیڑ اور مشکل حالات کے علاوہ خودکشیوں کے ذریعے اموات ہوئی ہیں۔


ڈیموکریسی ناؤ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایک نیپالی مزدور کا کہناتھا کہ ”یہاں ہم بہت ہی خستہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک کمرے میں 17 افراد رہائش پذیر ہیں، 50 افراد ایک چھوٹے سے باورچی خانے میں کھانا تیار کر کے کھاتے ہیں جہاں آگ بجھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، پانی نہیں ہے اور 50 افراد کو ایک ٹائلٹ کی سہولت دی جاتی ہے، رات بھر ٹائلٹ استعمال کرنے کیلئے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔“


انکا کہناتھا کہ ”ایسا لگتا ہے کہ ہم قیدمیں ہیں اور قطر میں یہ ایک قسم کی جدید غلامی ہے۔ پاسپورٹ کمپنی نے ضبط کر رکھے ہیں اور ہنگامی حالات میں وطن واپسی کا حق حاصل نہیں ہے۔“ ادھر دنیا بھر میں انسانی حقوق پر جاندار رپورٹنگ کرنے کا دعویدار قطری میڈیا ہاؤس ’ الجزیرہقطر میں محنت کشوں کی حالت زار پر توجہ دینے سے گریزاں ہے، وہیں پاکستانی حکمران بھی قطر کو دوست ملک کے طور پر پیش کرتے ہوئے قطر میں پاکستانی محنت کشوں پر ہونے والے مظالم پر ایک لفظ بولنا گوارہ نہیں کرتے۔