پنجاب کی جیلوں سے اقلیتی برادری کے ہزاروں قیدی کب رہا ہوں گے؟

یکم اپریل 2023 تک پنجاب بھر کی جیلوں میں کل 51 ہزار647 غیر مسلم قیدی موجود تھے۔ ان قیدیوں کے مقدمات کی نوعیت مختلف تھی۔ ان قیدیوں میں مردوں کی تعداد 50 ہزار 237 اور عورتوں کی تعداد 774 تھی جبکہ 636 نو عمر قیدی بھی جیلوں میں قید تھے۔

پنجاب کی جیلوں سے اقلیتی برادری کے ہزاروں قیدی کب رہا ہوں گے؟

'جیل سے رہائی کے بعد احساس ہوا کہ آزادی کیا ہے'، 4 سال سے زائد عرصہ جیل میں رہنے والے سلیم مسیح (فرضی نام) آج بھی اس وقت کو یاد کر کے اشکبار ہو جاتے ہیں جب جنوری 2020 میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے تمام 83 ملزمان کو بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ 2015 میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر دو بم دھماکوں اور اس کے نتیجے میں یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے پر تشدد احتجاج کے دوران 2 افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس نے اس سلسلے میں 40 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے تھے جن میں سلیم مسیح بھی شامل تھے۔

پاکستان میں انصاف حاصل کرنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ مسیحی قیدیوں کی اکثریت غریب ہونے کی وجہ سے وکیل کا انتظام نہیں کرسکتی جس کے نتیجے میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یوحنا آباد کیس کے حوالے سے قانونی ماہرین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت چلنے والے مقدمہ میں صلح کی بنیاد پر ملزمان کی رہائی نہیں ہو سکتی۔ ہاں مگر جرم کی سنجیدگی کو کم کرنے والے حالات کی موجودگی کی بنا پر ماضی میں اعلیٰ عدالتوں میں ایسے ملزمان کی سزاؤں میں کمی یا تبدیلی کی جا چکی ہے۔

پنجاب کے ہر ضلع میں کتنے مسیحی قیدی موجود ہیں؟

پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کے حق کے قانون 2013 کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یکم اپریل 2023 تک پنجاب بھر کی جیلوں میں کل 51 ہزار647 غیر مسلم قیدی موجود تھے۔ ان قیدیوں کے مقدمات کی نوعیت مختلف تھی۔ ان قیدیوں میں مردوں کی تعداد 50 ہزار 237 اور عورتوں کی تعداد 774 تھی جبکہ 636 نو عمر قیدی بھی جیلوں میں قید تھے۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ یاسر طالب فیصل آباد میں کرسچن کمیونٹی کے عدالتوں میں مقدمات لڑتے ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ 'عمومی طور پر کرسچن کمیونٹی پر شہروں میں شراب کی فروخت پر زیادہ مقدمات درج ہوتے ہیں۔ اس جرم میں شامل افراد پر 406 اور 354 دفعات کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دیہاتوں میں لڑائی جھگڑے 337/F4،381 اور 302 کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں'۔

قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے بتاتے چلیں کہ پاکستان میں کرسچن کمیونٹی کو شراب بیچنے کا لائسنس ملتا ہے۔ دفعہ 406 اور 354 کے مقدمات گھروں اور محلوں میں دیسی شراب بنانے اور غیر قانونی طریقوں سے خرید و فروخت کرنے والوں پر بنائے جاتے ہیں۔

کیا غربت سزا میں اضافے کا سبب بنتی ہے؟

ایڈووکیٹ یاسر طالب کا کہنا ہے کہ 'مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں میں بہت سارے جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ دیر تک جیل میں قید رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2022 میں سینڑل جیل فیصل آباد سے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت ملنے والی معلومات سے پتہ چلا تھا کہ جیل میں 6 ہزار روپے سے 60 ہزار تک کے جرمانے نہ بھرنے کی وجہ سے 22 قیدی سزائیں بھگت رہے ہیں'۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سونیا بی بی فیصل آباد میں 3 ماہ تک چوری کے الزام میں جیل میں سزا کاٹ کر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جیل میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی قیدی خواتین کے ساتھ بہت برا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جیل میں سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کوئی کھانا نہیں کھاتا اور یہ رویہ ہمیں ہر روز ایک نئی مشکل سے گزارتا ہے۔ جیل کی حدود میں دیگر خواتین کی طرف سے نفرت انگیز جملے کسے جاتے ہیں'۔

سونیا بی بی کا مزید کہنا تھا کہ 'کرسچن کمیونٹی سے تعلق ہونے کی وجہ سے معاشرے میں تو کسی نہ کسی بہانے سے ایسے رویوں کو برداشت کر لیتے ہیں مگر جیل کی چار دیواری میں ایسے رویوں سے تکلیف ہوتی ہے'۔

کیا غیر مسلم قیدیوں کو سزاؤں پر ریلیف ملتا ہے؟

کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو جیلوں میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب کی تقریباً 40 جیلوں میں تناسب کے اعتبار سے ان کی خاطر خواہ تعداد مختلف مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے بری ہونے کے انتظار میں دن گن رہی ہے۔

یکم جنوری 2020 تا 25 مارچ 2023 تک مذہبی اقلیتوں کے قیدیوں کی تعداد کے مطابق لاہور کی سنڑل جیل میں 77، سینٹرل جیل گوجرانوالہ سے 4، ڈسٹرکٹ جیل لاہور سے 37، ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ سے 3، ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ سے 23، ڈسٹرکٹ جیل میانوالی سے 4، ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا سے 4، ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور سے 3، ڈسٹرکٹ جیل بھکر سے 1، ڈسٹرکٹ جیل حافظ آباد سے 3، سینٹرل جیل فیصل آباد سے 20، ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد سے 7، ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ سے 6، ڈسٹرکٹ جیل گجرات سے 2، ڈسٹرکٹ جیل جہلم سے 2، ڈسٹرکٹ جیل منڈی بہاؤ الدین سے 1، سینٹرل جیل بہاولپور سے 4، ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان سے 5، ڈسٹرکٹ جیل بہاولنگر سے 3، سینٹرل جیل ساہیوال سے 4، ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی سے 2، ڈسٹرکٹ جیل خانیوال سے 5 جبکہ سینٹرل جیل ڈیرہ غازی خان سے 4 کو ریلیف دیا گیا۔

ان اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو پنجاب کے 21 اضلاع سے کل 220 مذہبی اقلیتوں کے قیدی اپنے گھروں کو واپس گئے جبکہ 15اضلاع میں کسی بھی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے قیدی کو کوئی ریلیف نہیں۔ ان اضلاع میں قصور، نارووال، جھنگ، راولپنڈی، اٹک، چکوال، لودھراں، بہاولپور، ہائی سکیورٹی جیل ساہیوال، اوکاڑہ، پاکپتن، ملتان، سب جیل شجاع آباد، مظفر گڑھ، راجن پور اور ڈسٹرکٹ جیل لیہ شامل ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ ان قیدوں کو کس طرح ریلیف ملتا ہے؟ ملک بھر کی جیلوں میں پروویژن سسٹم ہوتا ہے۔ پروویژن آفیسر کے سامنے قیدی پیش ہوتے ہیں جہاں سوشل کریکٹر اور تعلیم کو دیکھ کر ریلیف دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ ریلیف ایسٹر اور کرسمس کے تہواروں پر ملتا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے نو عمر قیدیوں کی حالتِ زار

پنجاب کی 30 جیلوں میں قید بچوں کے بارے میں پنجاب شفافیت اور معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کی معلومات کے مطابق سب سے زیادہ نو عمر قیدیوں کی تعداد سینڑل جیل فیصل آباد میں 114 ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بورسٹل جیل بہاولپور میں ان کی تعداد 107 تھی۔

پنجاب انفارمیشن کمیشن کی رپورٹ کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں؛

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سربراہ ربیعہ جاویری آغا کا کہنا ہے کہ 'یہ اعداد و شمار بہت حیران کن ہیں جبکہ قانون میں نو عمر بچوں کے کیسز کے فیصلے ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی سخت ہدایات ہیں'۔

سلیم مسیح اور سونیا بی بی دونوں نے مختلف مقدمات میں جیلوں میں سزائیں کاٹی ہیں۔ ان کے مطابق جیلوں میں وقت کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کرسچن کمیونٹی کو بھی مسلمانوں کی طرح جیل رمیشن دیا جائے جسں کے تحت قیدی کی سزا میں 6 ماہ کی کمی ہوتی ہے۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔