پاکستانی پائلٹ کے UFO دیکھنے کی حقیقت سامنے آ گئی۔ دعویٰ درست ثابت ہوا

پاکستانی پائلٹ کے UFO دیکھنے کی حقیقت سامنے آ گئی۔ دعویٰ درست ثابت ہوا
کسی کے ساتھ زندگی میں ہر کام ہی الٹا ہوتا ہو، تعلیم بھی اچھی نہ ملے، بیماریاں بھی ساتھ لگی رہتی ہوں، شادی ہو تو شریکِ حیات سے کبھی محبت نہ ملے، اور پھر بچے بھی ناکارہ نکل آئیں، تو کہا جاتا ہے کہ پتہ نہیں اوپر سے کیا نصیب لکھوا لائے ہو۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری قومی ایئر لائن یعنی PIA کا ہے۔ ابھی اس کا ایک سکینڈل قوم کو ہضم نہیں ہوا ہوتا کہ یہ ہمارےلئے شرمدنگی کا نیا سامان کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ابھی وفاقی وزیرِ ہوابازی ثودھری غلام سرور خان کی اس تقریر کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کے زیادہ تر پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کو جعلی قرار دے دیا تھا کہ ملائشیا میں ہمارا ایک طیارہ پکڑا گیا جسے وہاں کی عدالت نے لیز کی رقم ادا نہ کرنے کی بنیاد پر روک لیا تھا۔ کئی دن تک لوگ اس پر سر دھنتے رہے، ہوابازی کے ماہرین اسے PIA اور ملک کے ساتھ زیادتی قرار دیتے رہے مگر ساتھ ساتھ انتظامیہ پر تنقید بھی کرتے نظر آئے کہ جب ایک درجن دیگر طیارے کھڑے تھے تو آخر وہ طیارہ بھیجنے کی کیا تک تھی جس پر ملائشیا میں مقدمہ چل رہا تھا۔

اب کوئی دو ہفتے کے بعد بالآخر اس جہاز کو چھوڑا گیا ہے۔ تادمِ تحریر یہ طیارہ پاکستان نہیں پہنچا ہے کہ ایک نئی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار، اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ ایک پائلٹ صاحب رحیم یار خان کے اوپر سے قریت گزر رہے تھے کہ انہیں اچانک ایک UFO یعنی Unidentified Flying Object دکھائی دے گیا۔ اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اسے ایک اڑتی ہوئی ایسی چیز کہا جاتا ہے جس کے بارے میں آپ کو علم نہ ہو کہ یہ کیا چیز ہے۔ مگر ہمارے میڈیا نے اسے اڑن طشتری قرار دینا شروع کر دیا۔ اور اس عمل میں بھارتی میڈیا بھی پیش پیش تھا۔ یہ غالباً پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ جب کسی پاکستانی نے پاکستان کے اندر ہی UFO دیکھنے کا اعلان کر دیا ہو۔ اس سے پہلے وطنِ عزیز میں کچھ اداروں کو پیار سے خلائی مخلوق ضرور کہا گیا تھا لیکن اصلی خلائی مخلوق دیکھنے کا یہ دعویٰ شاید پہلا ہی ہے۔ یہ فلائٹ یعنی PK-304 تھی جو کہ Airbus A-320 طیارے میں کراچی سے معمول کی پرواز پر لاہور آ رہی تھی کہ رحیم یار خان کے قریب پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ اسے کوئی شے آسمان میں دکھی ہے جو کہ بہت تیز چمک رہی تھی۔

پائلٹ کا کہنا تھا کہ یہ شے انتہائی روشن تھی باوجود اس کے کہ سورج بھی اس وقت آسمان پر موجود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس چیز کو انہوں نے دیکھا وہ شاید کوئی سپیس سٹیشن یا زمین کے قریب کوئی مصنوعی سیارہ تھا۔ پائلٹ کے علاوہ رحیم یار خان کے بہت سے شہریوں نے اس چیز کو دیکھا اور اس کی ویڈیوز بنائیں۔ تاہم، میڈیا میں اسے اڑن طشتری بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس کو دنیا بھر میں اپنی وائر سروس کے ذریعے پھیلانا شروع کر دیا، اور سادہ لوح عوام بھی یہی سمجھنے لگے کہ کسی پاکستانی پائلٹ کو کوئی اڑن طشتری نظر آ گئی ہے۔

اس حوالے سے معروف امریکی سائنسدان اور سائنسی ابلاغ کے ماہر نیل ڈی گراس ٹائیسن سے ایک مرتبہ یہ ایک سیمینار میں سوال کیا گیا کہ آپ UFO یعنی اڑن طشتریوں پر یقین کیوں نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو اس لفظ کو یاد رکھیں کہ یہ کس چیز کا مخفف ہے۔ U سے مراد ہے Unidentified یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔ جب آپ کو علم ہی نہیں تو بس یہیں خاموش ہو جانا چاہیے۔ اب پاکستانی پائلٹ تو بالکل درست کہہ رہا ہے کہ اس نے ایک UFO دیکھا ہے یعنی ایک اڑتی ہوئی شے جس کے بارے میں اس کو علم نہیں کہ وہ کیا ہے۔ PIA کے مطابق واقعہ 23 جنوری کو پیش آیا اور پائلٹ نے وہی رپورٹ کر دیا جو اس نے دیکھا تھا اور یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ اگر اس کو فضا میں کوئی غیر معمولی چیز نظر آئے تو وہ اس سے کنٹرول روم کو مطلع کرے۔ اس نے واضح بھی کر دیا کہ جس چیز کو اس نے دیکھا ہے وہ یا تو کوئی مصنوعی سیارہ یا پھر کوئی سپیس سٹیشن ہو سکتا ہے۔ وہ کہیں خلائی مخلوق یا اڑن طشتری دیکھنے کا دعویٰ ہی نہیں کر رہا۔ لیکن PIA نہ جانے کیا نصیب لکھوا لائی ہے کہ اس کی بیچارے کی اس بے ضرر سی بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے اور اب پوری دنیا میں پاکستان میں UFO دیکھے جانے پر مباحثے جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔ گوگل پر یہ واقعہ اس وقت ٹاپ سرچز میں سے ایک ہے۔ اور کوئی بات نہ ہوتے ہوئے بھی فسانہ بن گیا کے مصداق PIA ایک بار پھر بین الاقوامی خبروں کی زینت بن گیا ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.