پنجاب کے کسان جو کہ اس امید پہ تھے کہ اس سال گندم کی پیداوار اچھی ہوگی مگر فصل کی کٹائی سے پہلے بارش کی شدید کمی اور اچانک سے گرم ہوتے موسم نے کسانوں کی ساری امیدوں پہ ناامیدی کی برف ڈال دی ۔
محمد وسیم تونسہ بیراج کے شہری ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دریائے سندھ کے قریب ہیڈ تونسہ بیراج کی حدود میں رہتے ہیں ہر سال جون سے ستمبر تک سیلاب آتا ہے جس سے ان کا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا ہے، سیلاب سے انکے گھروں میں 8 فٹ تک پانی جمع ہو جاتا ہے اور اسطرح انکے فصلیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں مگر اس دفعہ تو گرمی کے موسم میں گرمی کی شدت سے ہماری فصلوں کی پیداوار میں بہت کمی آئی ۔
عالمی ماہرین کے مطابق اب جنگیں ہتھیاروں کیلئے نہیں بلکہ پانی پہ ہوں گی ۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر دنیا بھر میں پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں ۔
پنجاب کے مختلف علاقوں بلخصوص جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ میں غیر معمولی گرمی کی لہر کے نتیجے میں گندم کی پیداوار گذشتہ سال 50 من فی ایکڑ سےانتہائی کم ہو کر اس سال صرف 30 من فی ایکڑ رہ گئی۔
سندھ، جنوبی پنجاب اور بیشتر علاقوں کے کسان بارش کے نہ ہونے اور قلت آب پہ شدید تشویش کا شکار ہیں ۔
وزارت خزانہ کے 2021-2022 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا زرعی شعبہ اس کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور زرِ مبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
گرمی کی شدت ایسی کہ انسان تو کیا پرندے اور جانور بھی زندگی کی بازی ہارنے لگے ۔ گرماہٹ ایسی کہ یوں لگتا ہے ہم ایشیاء میں نہیں بلکہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیہ میں واقع ڈیڈ ویلی میں سانس لے رہے ہیں۔
ڈیتھ ویلی مشرقی کیلیفورنیا کی ایک صحرائی وادی ہے، شمالی موجاوی صحرا میں، عظیم طاس صحرا سے ملحق ہے۔ موسم گرما کے دوران، یہ مشرق وسطیٰ کے صحراؤں کے ساتھ ساتھ زمین کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
مئی کے پہلے ہفتے میں محکمہ موسمیات کے شدید ہیٹ ویو کیلئے خبردار کیا تھا ۔ پاکستان کو موسم بہار میں گرم موسم کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق اس ہفتے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔
تیزی سے بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت ہندوستان اور پاکستان میں گرمی کی شدید لہر کا سبب بن رہا ہے، یہ خطہ 1.5 بلین لوگوں کا گھر ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں شدید گرمی نے بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی جھلسا دیا ہے۔ ہندوستان کے لیے، یہ گزشتہ اپریل 122 سالوں میں سب سے زیادہ گرم رہا اور اس کے بعد ریکارڈ پر گرم ترین مارچ رہا۔ پاکستان کے لیے یہ 61 سالوں میں گرم ترین اپریل تھا۔ جیکب آباد، پاکستان، جو پہلے ہی دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک ہے، میں درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ کے ساتھ دنیا کے دوسرے گرم ترین شہر کی فہرست میں شامل رہا۔
گرم ترین موسم نے اثرات سے سندھ میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ بلوچستان میں بھی آئے روز پانی کی کمی پہ احتجاجی مظاہرے خبروں کی زینت بنتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلشئرز پگھلنے کا عمل انتہائی تشویش ناک ہے جس سے نہ صرف شمالی علاقوں میں سیلاب آرہے ہیں بلکہ ان گلشئرز کی تعداد میں بھی بہت تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے ۔
ڈبلیو آر آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی، یعنی تقریباً 2.6 ارب لوگ، ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو کہ ’ہائیلی واٹر سٹریسڈ‘ (شدید آبی مسائل کا شکار) ممالک قرار دیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے 1.7 ارب افراد 17 ایسے ممالک میں ہیں جنھیں خطرناک حد تک آبی مسائل‘ کا سامنا ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق 2025 تک پاکستان واٹر سٹرسڈ ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا ۔
اس کے ساتھ ہی یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔
یہ اعداد و شمار اور تحقیق پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ بارہا اس بات کو اجاگر کیا جا چکا ہے۔ 2016 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 1990 میں واٹر سٹریس لائن تک پہنچ گیا تھا اور 2005 میں پانی کی قلت کی لائن عبور کرلی تھی۔
سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے ۔یعنی پاکستان دریاؤں کے پانی کا فقط دس فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
جبکہ 2009 میں یہ دستیابی 1500 کیوبک میٹر تھی۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دستیابی 500 کیوبک میٹر تک پہنچ گئی تو ملک 2025 تک مطلق پانی کی قلت کا سامنا کرے گا۔
موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حرارت کے اثرات :
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر پاکستان کے درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جس سے فصلیں ، چرند پرند اور یہاں کے باشندے متاثر ہو رہے ہیں۔ 2018 میں پاکستان نے اپریل کے گرم ترین مہینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جب اس کے شہر نواب شاہ میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ میں خاص طور پر جنوبی ایشیا کا ذکر کیا گیا ہے جہاں گرمی کی لہریں اور نمی سے متعلق گرمی کا دباؤ شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اور یہ غلط بھی نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال صرف مارچ میں انڈیا نے ایک درجن سے زیادہ گرمی کی لہریں ریکارڈ کیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 1895 ء کے بعد سے 2012 سب سے گرم سال رہا۔ اسی طرح دوسری سطح پر 2003 ء کے ساتھ 2013ء کو 1880کے بعد سب سے گرم سال کے طور پر ریکارڈ کیا گیاہے۔ یہ گرمی کی شدت میں اضافہ ، ہیٹ ویوز اور بارش کا نہ ہونا یہ سب عالمی درجہ حرارت کی مرہون منت ہیں۔
زمین کا مسلسل بڑھتا درجہ حرارت زمین کے قدرتی نظام میں خلل پیدا کر رہا ہے۔ پہاڑوں پہ جمی برف تیزی سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے ۔ موسم شد ت اختیار کر رہے ہیں اور زندگی کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر زمین مسلسل گرم ہوتی رہی تو وہ مقام آ سکتا ہے کہ یہ زمین جانداروں کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔
گلوبل وارمنگ سے کچھ ایسے ناقابل بیان نقصانات ہورہے ہیں جن کی تلافی بظاہر ناممکن نظر آتی ہے۔ جیسے برف کے گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ انٹارٹیکا کا سب سے بڑا آئس برگ ختم ہونے کے قریب ہے۔ 18برس سے بہتے بہتے جنوبی امریکہ کے پاس بہنے والا یہ سب سے بڑا حصہ ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 20برس بہنے کے بعد انٹارکٹیکا کا سب سے بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائے گا۔ موجودہ وقت میں برف کی مضبوط تہہ رفتہ رفتہ کئی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے، جن میں سے کئی گلشیئرز پگھل کر ختم ہوچکے ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو جرمن تھنک ٹینک، گرین واچ کی گلوبل کلائمیٹ انڈیکس 2020 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبرپر ہے۔ اسی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2018 کے درمیان موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان کو تقریبا 9، 989 انسانی جانوں کا ضیاع اور 3.8 بلین ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تھنک ٹینک نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
گذشتہ برس اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا۔
اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا میں سالانہ 90 لاکھ افراد کی اموات آلودگی کے سبب ہوتی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں صرف 2011/12 کے سیلاب میں ایک لاکھ سے زائد افراد دربدر ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے، 200 ارب روپے کی معیشت تباہ ہوئی۔
عالمی ادارے موسمیاتی تبدیلیوں پہ کام کر رہے ہیں :
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) تین ریو کنونشنوں میں سے ایک ، یو این ایف سی سی سی کا حتمی مقصد ایک سطح پر ماحول میں گرین ہاؤس گیس کے استحکام کو حاصل کرنا ہے جو آب و ہوا کے نظام کے ساتھ خطرناک مداخلت کو روک سکے گا۔کیوٹو پروٹوکول ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس نے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں 1992 میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن میں توسیع کی جو ریاستی جماعتوں سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عہد کرتا ہے ۔گرین ڈپلومیسی ایک ایسا ادارہ ہے جو زندگی کے قدرتی حالات کے تحفظ اور ترقی کے سلسلے میں سیارے پر موجود ہر انسان کے مفادات کے ساتھ ساتھ ریاست اور دوسرے کے مفادات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایس ڈی جی ایس گرین انیشیٹو اور بی تھری ڈبلیو ایسے ادارے ہیں جو بدلتی موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں پہ کام کرنے میں سرگرم ہیں ۔ ان کا مقصد قدرتی توانائی کے استعمالات کو فروغ کرنا ہے ۔ یہ ادارے پانی کے تحفظ کے طریقوں میں اضافے ، ری سائیکلنگ کے سلسلے میں اضافہ کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ عالمی حرارت ، صاف پانی کی فراہمی غربت کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔
عالمی سطح پہ کام ہورہا ہے مگر ایشیاء اور بالخصوص پاکستان میں ابھی بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا نظام ایسا ہے کہ اگر کچھ دیر بارش نہ ہو تو خشک سالی کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور اگر بارشیں معمول سے زیادہ ہوں تو پاکستان سیلاب کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ پاکستان میں اب تک فقط 150 ڈیمز موجود ہیں ۔ اور بدقسمتی کسی بھی حکومت نے نئے ڈیمز بنانے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ملک میں چھوٹے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پانی سے بننے والی بجلی کا فائدہ یہ ہے کہ ہم کوئلے اور تیل کی کھپت سے نجات حاصل کر لیتے ہیں اور ان کے جلنے سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے اثرات اپنے ماحول کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ جس جگہ درخت کاٹ کر تعمیراتی کام کیا جائے اس جگہ حکومت کی جانب سے یہ شرط رکھ دی جائے کہ جتنی گرینری کاٹی گئی اس کا 60-70 فیصد پودوں کی صورت میں لگائے جائیں ۔ یہ عمل بہت سے ممالک میں ہو رہا ہے ۔
شجرکاری جسکا پاکستان میں اب خاصا رجحان بھی دیکھا جا رہا ہے اس سے ہمیں عالمی حرارت کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ پودے اور درخت ہوا کو فلٹر کرنے کا کام کرتے ہیں اور ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں جو گلوبل وامنگ کا بڑا سبب ہے۔اس سے گلوبل وامنگ میں خاطر خواہ کمی آئے گا ۔ ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنا ہوگا ۔ قابل تجدید توانائی کے استعمال سے گلوبل وارمنگ کی روک تھام میں مدد ملے گی ۔ حرارتی بلب کو انرجی سیورز میں تبدیل کرنے سے بھی اسکے اثرات میں کمی آئے گی۔ سب سے اہم کا م انسانوں کو شعور دینا ہے اس مقصد کیلئے درسگاہوں کو گاہے بگاہے مختلف سیمنارز میں اس موضوع کو زیر بحث لا کر آنے والی نسل کی ذہن سازی کرنی چاہیے اور انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اگاہی فراہم کرنی چاہیے۔