ویرانوں کی آوارہ گردی ہمارا شوق ہے ۔ جب ہم تھک کر جنگل میں شیشم کے تنے سے ٹیک لگائے اپنے سمارٹ فون پر انگلی کی ایک ٹچ سے پانامہ کی نہر سے لے کر فجی کے جزیروں تک دنیا کو اپنے روبرو پاتے ہیں۔ ڈ ش انٹینا کی مدد سے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہیاں براہ راست دیکھتے ہیں۔ گائوں میں چارپائی پر تکیے سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ پر اپنا کالم کمپوز کر کے نیا دورکو ای میل کرتے ہیںٍ، یا یہاں کی کوئی ویڈیو بنا کر وطن کی یاد میں اداس جرمنی میں اپنے کسی پیارے کو اسی لمحےوٹس اپپ پر بھیجتے ہیں، تو خیال آتا ہے کہ اہل مغرب عالم اسلام کے خلاف سازشوں کی اپنی گوناگوں مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر علم وتحقیقی اورنئی سائنسی ایجادات پرپر ضرور’ ضائع ‘ کرتے ہیں۔
ہم دوتین برس قبل آئندہ صدی کا نقشہ کھیچنے والی مغربی ماہرین کی ’ دی سمارٹ تھنگز فیوچرلیونگ‘ نامی رپورٹ پڑھ کردم بخود رہ گئے تھے۔ خلاصہ عرض ہے آج سے سو سال بعد کا نقشہ کچھ یوں کھینچا گیا کہ تھری ڈی پرنٹیڈ گھر، فرنیچراورڈشیں تیارہوں گی۔ زیر زمین25منزلہ عمارتیں تعمیرہوں گی اورزیرآب شہر وجود میں آئیں گے۔ لوگ اپنے ذاتی ڈرون طیاروں میں دنیا بھرکی سیر کریں گے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی پسندیدہ ڈشیں چند لمحوں میں ڈائون لوڈ اورپرنٹ کرکے کھانے کے قابل ہوں گے۔ نیز چاند اورمریخ پر آبادکاری بھی ہوجائے گی اورخلا میں جانے کے لیے کمرشل فلائٹس بھی دستیاب ہوں گی۔
اگرچہ اس رپورٹ پر ہمیں کافی تحفظات ہیں مگر ساتھ ہی ڈر بھی ہے کہ جس عالم کفار کی صنعتی ترقی اور سائنس وٹیکنا لوجی نے زمین کی طنابیں کھیچ کر رکھ دی ہیں اورصدیوں کے فاصلے لمحوں میں طے ہونے لگے ہیں۔ جن کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پوری دنیا کے علوم کو سمیٹ کر انٹرنیٹ پر لے آئی ہے اورہرکسی کو ہرلمحہ دنیا بھرسے رابطہ میسر ہے۔ جن کی سائنس نے انسان پر کائنات کے اسرارورموز پر ناقابل یقین تحقیق کے در کھول دیئےہیں اورجنہوں نے اپنے جدید علوم کی بدولت فطرت کی ان قوتوں کو بھی زیرپاکرلیاہے، جو سو سال قبل انسان کے لیے ناقابل فہم معمہ تھیں ، ان سے کیا بعید کہ وہ اگلی صدی میں یہ سب کچھ بھی کر گزریں۔ جو کفار ہماری خدمت کے لیے بال پوائنٹ سے لے کر لائف سیونگ ڈرگز، موٹرکار، ٹرین، جہاز، بجلی، فون، کمپیوٹر ، سٹلائیٹ، فریج، اے سی، فائربرگیڈ اور ایبولینس تک لاتعدادچیزیں ایجاد کرسکتے ہیں۔ جو اپنے تاریک دور سے نکل کر جمہورییت ، مساوات، شخصی آزادیوں ،وسیع النظر سماج اورقانون کے احترام کا معتبر نظام کامیابی سے متعارف کراکے نیکو کاروں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کر سکتے ہیں، کیا عجب کہ وہ سمندر اور خلائوں کو چیر کر وہاں بستیاں بھی آباد کر دکھائیں۔
اگر ناسا خلا میں 13ارب40 کروڑ نوری سال دور واقع جی این زیڈ 11نامی کہکشاں کی تصاویرجاری کرسکتاہے، ان کا خلائی جہاز 4ارب 70 کلو میٹر فاصلہ طے کر کے پلوٹو کو چُھو سکتاہے۔ اگر ان کے سائنسدان اپنی مریخ گاڑی کیوروسٹی کی لیبارٹری میں مریخ کے ’کمبر لینڈ‘ پتھروں کا زمین پر لیبارٹریوں میں تجزیہ کر سکتے ہیں کہ وہ اربوں سال پہلے پانی کی جھیل میں پڑے تھے۔ قتالہ مغرب کے ماہرین فلکیات و سائسندان زمین جیسے 8.8ارب سیاروں کا ’ گولڈی لاک زون‘ دریافت کر سکتے ہیں ، سوچنے واالی مشینیں بنا سکتے ہیں، تو سو سال بعدان کی طرف سے 3D پرنڈیڈ گھر، چاند اور مریخ پر آباد کاری اورزیرزمین شہر بسانے جیسے ’ مافوق الفطرت‘ کام بھی کر دکھانے کو بے بنیاد قرارنہیں دیا جاسکتا۔
ثبوت زیر نظر ہے کہ کیا باپیادہ، گھوڑوں پر اوربحری جہازوں میں مہینوں کا سفرکرکے منزل تک پہنچنے والے ایک صدی پہلے کے ہمارے آباو اجداد سوچ سکتے تھے کہ ان کے بچے ایک دن لنچ دبئی اور ڈنر کراچی میں کریں گے؟ کیا خود ہم لوگ چند سال پہلے موبائل فون، آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، انٹر نیٹ، وٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر، اورانسٹا گرام جیسی بے شمارعقل شکن اشیا کا تصور بھی کر سکتے تھے؟
آج ساری دنیا کورونا وائرس سے یوں خوفزدہ ہے کہ زندگی کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیاہے۔ کم از کم ہم نے اپنی زندگی میں ایسا خوفناک ماحول کبھی نہیں دیکھا۔ لوگ لاک ڈاون کی وجہ سے گھروں میں محصورہیں۔ ہمارے جیسے برپشم قلندر ملک میں بھی دفاتر، تعلیمی ادارے، دکانیں، گاڑیاں، شاہراہیں اورموٹر وے وغیرہ بند ہیں۔ پھر بھی متاثرین 1246اورہلاکتیں 9ہو چکی ہیں۔ جبکہ بی بی سی کے مطابق تادمِ تحریر (26مارچ) دنیا میں کورونا متاثرین کی تعداد پانچ لاکھ اوراس سے ہلاک شدگان کی تعداد 24 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ائی ایم ایف، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک پاکستان کو 584ارب دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔امداد بھی ملے گی ۔ امید ہے کہ اہل مغرب اور عرب بھائی اس نازک موقع پر دل کھول کر ہمیں امداد دیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں اپنے شہریوں کو اس جان لیوا وبا سے بچانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ہنگامی اقدامات کررہی ہیں۔ جبکہ یہاں ہر طرح کے لال بجھڑ اور نیم حکیم طرح طرح نسخے اس طرح بیان کررہے ہیں ، جیسے انہوں نے کئی دفعہ کورونا سے دنیا کو بچایاہے۔
آج ہم چشم تصور سے 100سال کے بعد کےحالات دیکھ رہے ہیں، جب کورونا وائرس کو ختم ہوئے لمبا عرصہ گرز چکا ہوگا۔ کاش یہ نہ لکھنا پڑتا مگر ماضی گواہ ہے کہ تب خدا نخواستہ زلزلہ، سیلاب یا کورونا جیسی کوئی وبا وطن عزیز میں جلوہ گر ہوگی۔ ہماری حکومت تب بھی دنیا کے در در پر کشکول گھمارہی ہو گی اورعوام 2005میں زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی چھ ملین ڈالرز کی بیرونی امداد کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے لیے آنے والی امداد بھی ڈھونڈ رہی ہوگی ۔لال بجھڑ اور نیم حکیم تب بھی میڈیا میں دینا بھرکے لیے ہر نوع کے نسخے بیچ رہے ہوں گے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب سو سال بعد پہلی اورگناہ گاردنیا نظام شمسی پر اپنا سکہ جماچکی ہوگی ، تب تیسری دنیا کی اس ایٹمی طاقت کے مکین ماضی کی روایات کو سینے سے لگائے تاریخ کے پچھواڑے میں رینگ رہے ہوں گے۔ جب اہل یورپ چاند پر آباد کاری میں مصروف ہوں گے، ہم پارسا زمین پر باہم دست وگریباں ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی بحث میں تین تین عیدیں منا رہے ہوں گے۔ وہ شخصی آزادیوں سے زندگی کا لطف آٹھائیں گے ، ہم ویلنٹائن ڈے کے خلاف رفیع الشان جلوس نکالا کریں گے۔ پہلی دنیا میں سچ کی حکمرانی ہوگی ، یہ سرزمین جھوٹ کی راجدھانی ہوگی۔ وہاں متواتر انتخابات ہواکریں گے، ہم اپنے آمروں کے عرس منایا کریں گے۔ وہ الیکشن کرایا کریں گے اورہم ریفرنڈم ۔ سوسال بعد جب غیر مسلم باہم متحد ہوکر اس گلابل ویلج پر قابض ہوجائیں گے تو اس وقت بھی ہم انگھوٹھا چھاپ ’ گلابل ویلیج‘ سے سے دور اپنی کچی ڈھوک پر بیٹھے اتحاد امہ کے پھٹے ڈھول بجاتے ساری دنیا کو فتح کرنے کی قوالی کررہے ہوں گے۔