پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کو جواب دہ نہیں، ن لیگ کے صدر شہباز شریف ہیں، شہباز شریف کے بیانیے کو ہی ن لیگ کی پالیسی سمجھیں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ صرف اپنے جیالوں کو جواب دہ ہیں، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے شوکاز نوٹس پھاڑنے سے متعلق ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بدین میں میڈیا سے گفتگو میں بلاول کا کہنا تھاکہ شہباز شریف مسلم لیگ کے صدر اور قائد حزب اختلاف ہیں، شہبازشریف جو کہیں گے، ان کے بیانیے اور مؤقف کو مسلم لیگ کی پالیسی سمجھیں گے اوراس پرسیاست کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک پی ڈی ایم کی بات ہے شوکاز نوٹس کو پھاڑا ہے، پی ڈی ایم سے متعلق میرے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
بلاول کا کہنا تھاکہ ہم نہ مریم شریف کو جواب دہ ہیں نہ میاں صاحب کو، ہم پیپلزپارٹی اور اس کے جیالوں کوجواب دہ ہیں اورجیالوں کے ساتھ ملکر سیاست کریں گے۔
بلاول کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب محض ایک روز قبل مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی کے اس سوال پر بھرپور تائید کی تھی کہ کیا پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے؟ مریم نے جواب میں کہا تھا کہ آپ کو اب پتہ چلا ہے؟
اسی روز مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے بھی پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی ہمارے خط کا جواب دیے بغیر پی ڈی ایم میں واپس نظر آئی تو پھر میں آپ کو اس پی ڈی ایم میں نظر نہیں آؤں گا۔
دونوں جماعتوں کی جانب سے حالیہ بیانات میں جہاں ایک دوسرے کو لتاڑا گیا ہے وہیں یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ آج کی سیاست میں کون کہاں کھڑا ہے۔ یہی مریم نواز تھیں جو کچھ عرصہ قبل تک نہ صرف بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی تھیں بلکہ جب بلاول کی جانب سے ایک انٹرویو کے دوران کہا گیا کہ وہ نواز شریف کی جانب سے نام لیے جانے پر خود بھی حیران رہ گئے تھے اور یہ کہ ان کی پارٹی کی یہ پالیسی نہیں ہے تو مریم نواز نے باقاعدہ بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں ان کے بیان کا دفاع کیا تھا۔ واقفانِ حال تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف مریم کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اس قدر رابطوں سے ناخوش تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی سے اختلاف کی صورت میں ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو کہ اس وقت پیدا ہو چکی ہے کہ دونوں قائدین بار بار ایک دوسرے پر سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو دھوکہ دے سکتی ہے۔
دوسری طرف بلاول ہیں جو اب شہباز شریف کے بیانیے کو ہی مسلم لیگ نواز کا بیانیہ ماننا چاہتے ہیں کیونکہ مریم نواز کا بیانیہ تو بڑا واضح ہو چکا ہے۔ یہ وہی شہباز شریف ہیں جنہیں پیپلز پارٹی نے 2018 میں اس لئے وزارتِ عظمیٰ کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا کہ یہ ماضی میں ان کی جماعت کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے اور 28 ستمبر 2011 کو لاہور جلسے میں تو یہ تک کہہ ڈالا تھا کہ زرداری اور ان کے ساتھیوں کو الٹا لٹکائیں گے۔ پھر یہ بھی کہا کہ ان کے پیٹوں سے پیسہ نکالیں گے اور قوم کو واپس کریں گے۔
یاد رہے کہ شہباز شریف نے جس وقت یہ تقریر کی، نواز شریف ملک سے باہر تھے اور واپس آ کر اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی اس بات پر سرزنش کی۔
مگر ایسا نہیں کہ زرداری صاحب نے بدلہ نہ لیا ہو۔ 2017 میں جب مسلم لیگ نواز پر برا وقت چل رہا تھا اور اسٹیبلشمنٹ کی شہباز شریف سے ہٹ کر نظرِ کرم عمران خان پر ہو چکی تھی تو زرداری صاحب نے بھی بیان داغا تھا کہ شہباز شریف کے پیٹ سے لوٹ کا پیسہ نکالیں گے۔ مالاکنڈ کے علاقے بدرگہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدرِ پاکستان نے کہا تھا کہ شہباز شریف پختونوں کا حصہ کھا رہے ہیں۔
پھر یہی آصف زرداری تھے جنہوں نے شہباز شریف کا پی ڈی ایم بنانے کے لئے بھرپور استقبال کیا۔ اور شہباز شریف جو لوٹ کا پیسہ پیٹوں سے نکالنے اور زرداری اور ان کے ساتھیوں کو الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے، انہیں زر بابا اور چالیس چور کا نام دیا کرتے تھے، وہ بھی بڑے احترام سے زرداری صاحب سے جھک کر ملے۔
یہ درست ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کل کے دشمن ہو سکتے ہیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں ایسے الزمات لگائیں کہ بعد ازاں ایک دوسرے سے ملنا پڑے تو سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔ چند ہفتے قبل مریم کہہ رہی تھیں کہ وہ بلاول پر ذاتی حملے کبھی نہیں کریں گی۔ یہ اچھا فیصلہ ہے۔ بلاول نے بھی یہی عزم کیا تھا۔ لیکن جس تیزی سے بیانات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لگتا نہیں کہ زیادہ دن یہ دونوں اس عہد پر بھی قائم رہ سکیں گے۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ پی ڈی ایم پر فاتحہ مریم اور شاہد خاقان عباسی پڑھ چکے ہیں۔ اب اس میں پیپلز پارٹی کی واپسی ان دونوں حضرات کی قربانی دے کر ہی آ سکتی ہے یا پھر پیپلز پارٹی اپنی انا کی قربانی دے دے۔ بلاول واضح کر چکے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ تو کیا عمران خان کے لئے ستے خیراں ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ مریم سے دوری بنا کر لیکن شہباز شریف کے بیانیے کو مسلم لیگ نواز کا اصل بیانیہ تسلیم کر کے بلاول نے دراصل دونوں جماعتوں کے درمیان پارلیمانی سطح پر بات چیت اور تعاون کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ اسٹیبشلمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ فی الحال کوئی انتخابات نہ ہوں، کوئی تبدیلی آنی ہے تو ایوان کے اندر ہی آ جائے۔ بلاول کی بھی یہی خواہش ہے۔ سڑکوں پر احتجاج اور پارلیمان سے استعفوں کا معاملہ تو ختم ہوا لیکن عمران خان کی اصل مشکل بہرحال قومی اسمبلی کے اندر ہے، جہاں پہلے بھی یہ جماعتیں ایک مرتبہ ان کو دکھا چکی ہیں کہ جب چاہیں ان کے پیروں کے نیچے سے قالین کھینچا جا سکتا ہے۔