وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے بلز، کیا صحافی مطمئن ہیں؟

وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے بلز، کیا صحافی مطمئن ہیں؟
گزشتہ کئی مہینوں سے صحافیوں کے تحفظ کے بل کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آرہی تھیں اور بالآخر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گيا ۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بل پر صحافیوں کےساتھ ڈیڑھ سال مشاورت کی جبکہ میں نےآج تک انسانی حقوق سے متعلق کوئی بل مسترد نہیں کیا۔  صحافیوں کے بل میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ قانون ’جبری یا رضاکارانہ گمشدگی، اغوا، قید یا دباؤ کے دیگر طریقوں‘ کے خلاف تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ملک میں تنازع کا شکار علاقوں میں کسی دھمکی، ہراسانی یا حملے کے خوف کے بغیر صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ ہر صحافی اور میڈیا ورکر کو آرٹیکل 9 کے تحت دی گئی سیکیورٹی کا حق حاصل ہے، صحافیوں کو متنازع علاقوں میں کام کا حق حاصل ہے۔ واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جبکہ جمعے کے روز اس بل کو سندھ اسمبلی سے پاس کیا جائے گا.

اس بل پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے پاس ہونے والے دونوں بلز پر کافی محنت ہوئی اور دونوں بہت اچھے بل ہیں لیکن میں ذاتی طور پر سندھ اسمبلی کی جانب سے پیش کئے گئے بل کی تعریف کرونگا کیونکہ ان میں کچھ نکات بہت اہم ہیں جیسے سندھ حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے بل میں صحافیوں سمیت میڈیا اداروں میں کام کرنے والے کیمرہ مین، ڈی ایس این جی چلانے والے ڈرائیورز اور انجینئرنگ سٹاف کو بھی تحفظ دیا ہے جو قابل تحسین ہے جبکہ وفاقی حکومت کے بل میں یہ شامل نہیں.

وفاق کی جانب سے جمع کروائے گئے بل پر بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا اس بل میں کمیشن کو خودمختار بنا دیا گیا ہے اور اگر اس کو کام کرنے دیا گیا تو اس کے صحافیوں کے لئے بہت اچھے اثرات مرتب ہونگے.
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے جامع قانون سازی کی ہے جس سے صحافیوں کے خلاف جرائم میں کمی آئی گی.

ملک میں صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کو صحافیوں کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنی  سالانہ رپورٹ میں  کہا ہے کہ مئی 2020 سے اپریل 2021 تک میڈیا اور صحافیوں پر حملوں اور آزادی اظہار کی خلاف ورزیوں کے کم از کم 148 کیسز سامنے آئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فی صد زیادہ ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں صحافیوں  کی حالت زار پر یورپی یونین کا موقف بھی سامنے آیا  اور ادارے نے پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں میڈیا کی آزادی پر پابندیوں کا واضح منفی رجحان سامنے آیا ہے  اور اس سے بیرونی دنیا میں  پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر جاتا ہے۔

صحافی مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ دونوں بل انتہائی اہم ہیں اور دونوں پر کافی کام ہوا ہے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جب یہ بل قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے پاس ہوگا اور قانون سازی کی شکل اختیار کریگا تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اس کے ٹی او آرز کیسے بنائے جاتے ہیں اور اس کو کیسے نافذ العمل کیا جائے گا.

فریڈم نیٹ ورک کے بانی اور جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اقبال خٹک سمجھتے ہیں کہ کئی سال کے جدوجہد کے بعد صحافیوں کے تحفظ کے بل سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں پیش ہوئے لیکن سب سے اہم نکتہ  یہ ہے کہ اس بل کو پاس کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہے.

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔