خیبر پختونخوا میں وفاق سے بھی پہلے بجٹ کیوں پیش کر دیا گیا؟

سالانہ ترقیاتی اخراجات میں بیرونی معاونت سے چلنے والے منصوبوں کیلئے 130.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم بھی پلیجڈ یعنی کوئی چیز گروی رکھنے یا ضمانت دینے کے عوض ملے گی۔ بجٹ دستاویز میں اس کا ذکر محض سالانہ ترقیاتی اخراجات کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں وفاق سے بھی پہلے بجٹ کیوں پیش کر دیا گیا؟

صوبہ خیبر پختونخوا میں وفاق سے بھی پہلے بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جس کا کل حجم 1754 ارب روپے ہے۔ اس میں اخراجات کیلئے 1654 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 100 ارب کا سرپلس دکھایا گیا ہے۔

بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم اور صحت کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ تعلیم کیلئے مجموعی طور پر 362 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ شعبہ صحت کیلئے 232 ارب سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ صرف تعلیم او صحت کے بجٹ کو اگر ہم دیکھیں تو یہ مجموعی بجٹ کا 35 فیصد بنتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کا رجحان وہی ہے جو 9 سال پہلے تھا۔ اس کے علاوہ بجٹ میں سب سے زیادہ اخراجات تنخواہوں اور پنشنز کے ہے جو مجموعی بجٹ کا تقریباً 46 فیصد بنتے ہیں۔

آنے والے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشنز کا کل حجم 797 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ہر سال کی طرح رواں مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق تنخواہوں کا گراف سالانہ 22 فیصد کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ 2030 تک تنخواہوں کے سالانہ بجٹ میں 40 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔ اس شرح کے ساتھ تنخواہوں اور پنشن کے حجم میں اضافے سے صوبے کا ترقیاتی بجٹ تقریباً ختم ہو جائے گا۔

مالی سال 2024-25 کی بجٹ دستاویز کے مطابق ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 416.30 ارب روپے رکھا گیا ہے جو حقیقت سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ بجٹ ہی کی دستاویز میں قبائلی اضلاع کے این ایف سی حصے سے متعلق جو اعداد و شمار دکھائے گئے ہیں وہ کافی مایوس کن ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق ضم اضلاع کا این ایف سی کے مطابق سالانہ حصہ 262 ارب روپے بنتا ہے مگر وفاق نے گزشتہ سال کے بجٹ میں صرف 132 ارب دیے ہیں جو ضم اضلاع کے کل حصے کا 50 فیصد ہی بنتے ہیں۔ یوں وفاق کی جانب سے پیسے نہ ملنے پر پختونخوا کو 139 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اسی طرح بجٹ دستاویز کے مطابق سالانہ ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 416.30 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں قبائلی علاقوں کیلئے اے آئی پی یعنی ایکسلریٹڈ ایمپلیمنٹیشن پروگرام کے تحت 79.29 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اے آئی پی فارمولہ کے تحت انضمام کے بعد تمام صوبوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک مخصوص رقم قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے دیں گے جس کے تحت صرف پنجاب سے سالانہ 23 ارب روپے ملنے تھے مگر آج تک ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ اسی لئے بجٹ میں دکھائے گئے اعداد و شمار میں سے 40 ارب روپے ملنے کا امکان ہے کیونکہ یہ وفاق اور پختونخوا کے حصے کے پیسے ہیں۔ باقی صوبوں کے 36 ارب کا لکھنا صرف کاغذی کارروائی کا حصہ بنانا ہے۔

سالانہ ترقیاتی اخراجات میں بیرونی معاونت سے چلنے والے منصوبوں کیلئے 130.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم بھی پلیجڈ یعنی کوئی چیز گروی رکھنے یا ضمانت دینے کے عوض ملے گی۔ بجٹ دستاویز میں اس کا ذکر محض سالانہ ترقیاتی اخراجات کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اسی طرح بجٹ دستاویز کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرامز میں سے وفاق کی مدد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے بھی 26.41 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اگر ہم حقیقی اعداد و شمار کو دیکھیں تو سالانہ ترقیاتی اخراجات کا حجم 416 ارب کی بجائے 220 ارب روپے رہ جاتا ہے اور اس کا مستقبل قریب میں گرنے کا قوی امکان بھی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ سے پہلے صوبائی حکومت اس حوالے سے بیانات بھی دینا شروع کر دے۔

بجٹ دستاویز میں سب سے حوصلہ افزا چیز چار قسم کے احساس پروگرام ہیں جن میں احساس روزگار پروگرام، احساس نوجوان پروگرام، احساس ہنر پروگرام اور احساس اپنا گھر پروگرام شامل ہیں۔ ان چار پروگرامز کیلئے مجموعی طور پر 12 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے ہر پروگرام کو 3، 3 ارب روپے دیے جائیں گے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق احساس اپنا گھر کے تحت 5000 گھر تعمیر کئے جائیں گے جن کے لئے اہلیت کا معیار بعد میں وضع کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ میرٹ کے مطابق اہل لوگوں کو گھر دیے جائیں گے اور اہلیت کا معیار بھی جلد سامنے آ جائے گا۔

اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ 3 جون کو آنے والا ہے اس لئے حکومت کو جلدی ہے اور مرکز سے بھی پہلے بجٹ پیش کر دیا۔ مشیر خزانہ نے اس کی مکمل تردید کرتے ہوئے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بڑی عید کو جلد بجٹ پیش کرنے کی وجہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وفاق کا بجٹ 12 جون کو آنے کا امکان ہے اور اس کے فوراً بعد عید ہے اس لئے صوبائی بجٹ پہلے پیش کیا گیا۔

سید زاہد عثمان کا تعلق پشاور سے ہے۔