لگ بھگ 30 سال قبل ضیائی دور سے شروع ہونے والا ہمارا مجموعی ذہنی تعلیم و تربیت کا قافلہ قَریہ قَریہ، نگر نگر اپنے عِلم، انسان دوستی، انسانی وقار، حقوقِ نسواں، اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے اور اعلیٰ وقار کے جھنڈے گاڑنے کے بعد جڑانوالا سے ہوتا ہوا اب سرگودھا پہنچ گیا ہے۔
ہمارے اس قافلے کی ذہنی تربیت 1986 کے آس پاس چند مخصوص قوانین متعارف کروانے سے شروع ہوئی جنہیں قبولیت اور عدم قبولیت ہر دو لحاظ سے خاصی شہرت ملی۔ ہمارا یہ قافلہ انہی قوانین کا ثمر ہے، لہٰذا ہم ان قوانین کو گھول کر پی چکے اور یہ ہمیں ازبر بھی ہیں۔ تین دہائیوں میں ہمارا قافلہ معاشرتی اقدار اور سماجی رویوں کی ان گنت مثالیں قائم کر چکا ہے۔ اپنے اثر و رسوخ سے ہم نصابِ تعلیم کو دورِ حاضر کے عین مطابق بنا چکے۔ ہم ذہنوں کی آبیاری نہ کرنے والے مواد کو اٹھا کر باہر پھینک چکے تاکہ معصوم ذہن پراگندہ نہ ہو جائیں۔ ہم نے خواتین کے احترام کو درجہِ اول سمجھا، گردانا اور فروغ دیا۔ ہمارے قافلے نے خواتین کی عزت و وقار کے لئے نئے نئے، اچھوتے اور منفرد قوانین بنانے میں سہولت کاری کی ہے۔ ہمارے قافلے نے دیگرعقائد سے تعلق رکھنے والی لاتعداد جوان بچیوں کا مستقبل سنوارا، انہیں راہِ راست پر لائے اور ان کے لئے جیون ساتھی بھی تلاش کیے۔ گویا ان کے ذاتی فیصلوں کی ذمہ داری بھی ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔
پچھلے سال اگست کی 16 تاریخ کو ہمارا قافلہ جڑانوالہ میں تھا۔ وہاں سینکڑوں مسیحیوں کے خستہ حال مکانوں کا غم ہمیں کھائے جاتا تھا۔ ان کی خستگی دور کرنے کے لئے ہم نے ان کے گھروں کی 'ازسرِنو' تعمیر و مرمت کا بیڑا اٹھانے سے پہلے انہیں گرایا، جلایا اور دھمکایا۔ اِس کےعلاوہ کوئی درجن بھر گرجا گھروں کا کام ہونا بھی باقی تھا، اِس دوران ان کا 'کام بھی تمام' کیا۔ ہم میں خدمتِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
جڑانوالا سے سرگودھا پہنچنے میں ہمیں 9 ماہ اور 8 دن کا سفر طے کرنا پڑا۔ اس دوران ہم چاروں صوبوں کے مختلف شہروں میں کچھ ضمنی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ ان سرگرمیوں کی تفصیل چند ہفتوں تک پیش کر دی جائے گی۔
انسانی خدمت کے کسی بھی زاویے پر کام کرنا ہو، ہمارا قافلہ صرف اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتا ہے۔ قانون شانون کی کوئی پروا نہیں بلکہ اکثر اوقات ہمیں مقامی سطح پر سہولت کاری بھی حاصل رہتی ہے۔ ہمارے قافلے کے قائدین سمجھتے ہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ سبھی کچھ قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ تحقیقات ہونا لازمی ہیں اور قانون کو اپنا راستہ اِختیار کرنا چاہیے۔ ہم ایسی سرگرمیوں کے سخت خلاف ہیں جو قانون کے دائرے سے باہر ہوں۔ ہم سب کے مساوی احترام کی وکالت کرتے ہیں۔ اب دیکھیں ناں! سرگودھا میں خواہ مخواہ ایک غریب خاندان پر محض شک کی بنا پر حملہ کر دیا، انہیں ہراساں کیا گیا اور مالی نقصان پہنچایا گیا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ہمارے ناقدین کے مطابق سرگودھا واقعہ پچھلے سال کا باقی ماندہ ایجنڈا تھا جس کے لئے مناسب وقت اور ماحول نہیں مل رہا تھا۔ ویسے اتنی خبر تو ہم بھی رکھتے ہیں کہ اس طرز کے واقعات میں 90 سے زائد افراد کو شک کی بنیاد پر جان سے مارا جا چکا ہے، جن میں ملکی، غیر ملکی، اپنے، غیر، مرد اورعورت سبھی شامل تھے۔ ویسے ہمارا قافلہ سمجھتا ہے کہ ایسے واقعات میں مشتعل ہجوم کو حد میں رہنا چاہیے۔ حقیقت جانے بِنا یا پولیس کی تحقیقات کا انتظار کیے بِنا قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔
ہمارا قافلہ سمجھتا ہے کہ ہجوم کے بھی کچھ آداب ہونے چاہئیں۔ یوں عام نہتے شہریوں پر ہلہ نہیں بولنا چاہیے۔ اس طرح کا مشتعل ہجوم پہلے ہی لاکھوں افراد کی زندگیوں کی رنگینی تہس نہس کر چکا اور ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں اجیرن بنائی جا چکا۔ اس ہجومی رویے نے معاشرے کو مجموعی طور ہر بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ معاشرے میں صبر، تحمل، برداشت، مکالمہ، تحقیق، رواداری، قبولیت اور دوسرا نقطہ نظر سننے کے رحجان کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ رویوں میں ناصرف سختی اور تشدد کا عنصر بڑھ گیا ہے، بلکہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی آوازوں کو بھی دبایا جا رہا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے قافلے کا 1997 میں خانیوال کے شانتی نگر کو جلانے، 2005 میں سانگلہ ہل کے گھروں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں، 2009 میں قصور میں کوریاں اور اگلے ہی روز گوجرہ کی بستی کو تہس نہس کرنے اور 2013 میں لاہور کی جوزف کالونی، مردان کے گرجا گھر اور سکول اور 2014 میں کوٹ رادھا کشن کی شمع اور شہزاد، 2023 میں جڑانوالا میں سینکڑوں املاک کو نذرِآتش کرنے اور اب سرگودھا میں نقصِ امن میں خلل ڈالنے جیسے واقعات سے کچھ لینا دینا نہیں اور نا ہی ہمارا اس سے کوئی سروکار ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ یہ سانحات نفرت، عدم برداشت اور نظامِ انصاف پرعدم اعتماد کا ثبوت ہیں۔
کچھ دانشور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ذہنی تعلیم و تربیت کے ذریعے جس قافلے کو پال پوس کر جوان کیا گیا تھا وہ اب معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں کی شدت میں صفِ اول میں کھڑا ہے جس کی مثال جڑانوالہ سے سرگودھا تک کا سفر اور وہاں کی روداد ہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ سرگودھا جیسے سینکڑوں واقعات میں ذاتی رنجشیں اور گروہی معاملات کو حل کرنے کے لئے جذبات کے ساتھ کھیلا گیا ہے اور اس مجموعی صورت حال میں قانون کی حکمرانی انتہائی کمزور رہی۔
ہمارا قافلہ اہلِ دانش کی حکمرانوں کے نام سفارشات میں عام شہری کی زندگی، احترام اور حقوق کے فروغ کے لئے قانون سازی اور تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دینے پر تو ان کے ساتھ سہمت ہے مگر ہم جلد جڑانوالا سے جڑانوالاستان کے قیام تک کا سفر مکمل کرنے والے ہیں، یہ بات اپنی کھوپڑی میں جگہ نہیں بنا پا رہی۔