پاکستان میں سخت ترین جیلیں کن سیاسی رہنماؤں نے کاٹیں

پاکستان میں سخت ترین جیلیں کن سیاسی رہنماؤں نے کاٹیں
پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ جیل میں تھیں تو انہیں چوہوں کا بچا ہوا کھانا کھلایا جاتا تھا۔اپنی رہائشگاہ جاتی امرا میںجمعرات کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے تھارائیڈ کا مسئلہ تھا اور مجھےادویات بھی صحیح نہیں دی جاتی تھیں۔ میں جیل میں فنگس زدہ ادویات کھانے پر مجبور تھی۔

مریم نواز گذشتہ دو سال کے دوران دو مرتبہ جیل جا چکی ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ 13 جولائی 2018 کو اپنے والد نواز شریف کے ساتھ لندن سے وطن واپس لوٹیں تو اس وقت وہ نیب عدالت سے سزا پانے کے بعد ہی واپس پہنچی تھیں۔ ان کا جہاز لاہور لینڈ کرنے کے بعد چند ہی منٹوں میں دوبارہ اڑان بھر کر اسلام آباد روانہ ہو گیا تھا جہاں سے انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں وہ لاہور جیل میں منتقل کر دی گئی تھیں۔ اس کے بعد گزشتہ برس اگست میں انہیں اچانک گرفتار اس وقت کیا گیا تھا جب وہ کوٹ لکھپت جیل میں اپنے والد سے ملاقات کرنے کے لئے پہنچی تھیں اور نیب نے انہیں جیل کے احاطے سے ہی ان کے والد کے سامنے سے گرفتار کر لیا تھا، جس پر وہ بارہا غصے کا اظہار کر چکی ہیں۔ یہ تو واضح نہیں کہ انہوں نے کس عرصہ اسیری کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انہوں نے جیل میں گزارے اپنے ایام سے متعلق بات چیت کی ہے۔

ابھی چند ہی روز قبل گلگت بلتستان انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے نیو نیوز پر بینش سلیم کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حوالے سے بات کی تھی۔ تب ان کا کہنا تھا کہ جیل میں ان کے سیل میں اور باتھ روم تک میں کیمرے لگائے گئے تھے۔ یہ ایک سنگین الزام تھا جس کا کوئی جواب جیل حکام کی طرف سے تاحال نہیں آیا لیکن اس تازہ ترین دعوے کو وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ مریم نواز نے ایک روز بھی جیل کا کھانا نہیں کھایا، اور ان کا کھانا ہمیشہ سے گھر سے آتا رہا تھا۔ مریم نواز نے اس بیان کا جواب دی الحال نہیں دیا ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دعوے پاکستان میں نئے نہیں۔ پاکستان کے صفِ اول کے لیڈران بڑی سخت جیلیں کاٹ چکے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو اور خود مریم نواز کے والد نواز شریف بھی شامل ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جس وقت جیل میں تھے تو ان کی کال کوٹھڑی کے بارے میں انہیں بھی یقین تھا کہ یہ پوری طرح سے bugged تھی اور حکومتی اہلکار ان کی تمام حرکات و سکنات، خصوصاً ان کے وکلا کے ساتھ ان کی بات چیت پر مکمل نظر رکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے نت نئے طریقوں سے اس چیز کا توڑ نکالنے کی کوششیں کیں۔ کرنل رفیع الدین اپنی کتاب بھٹو کے آخری 323 دن میں لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو یہ یقین تھا کہ ان کی تمام باتیں ریکارڈ ہو رہی ہیں، اور وہ یوں بھی بہت کم لوگوں پر اس وقت اعتماد کرنے کو تیار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی صاحبزادی بینظیر بھٹو سے ان کے کان میں بات کیا کرتے تھے اور دونوں باپ بیٹی کئی کئی گھنٹے جیل کے سیل بات کرتے تھک بھی جاتے تھے تو یہ ایک ساتھ لیٹ کر ایک دوسرے کے کانوں میں باتیں کیا کرتے تھے۔

اسی طرح بینظیر بھٹو بھی ضیا دور میں متعدد مرتبہ جیل بھیجی گئیں۔ ان کے دونوں بھائی الذوالفقار چلا رہے تھے اور 1981 میں ایک پاکستانی طیارے کو ہائی جیک کر کے کابل لے جایا گیا تو ضیا حکومت نے اسے استعمال کرتے ہوئے بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کو جیل میں ڈال دیا۔ بینظیر بھٹو MRD تحریک کے دوران بھی کئی مرتبہ جیلوں میں گئیں۔ سکھر میں جیل کے دوران بینظیر بھٹو کے مطابق ان کو جلد کی طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہوئیں۔ سکھر کی سخت گرمی کے دوران دن میں تو انہیں لوہے کی سلاخوں کے پیچھے سخت گرم کمرہ سانس لینا بھی محال کر دیتا تھا اور رات میں مچھر اور جانے کون کون سے حشرات ان کو کاٹا کرتے تھے۔ مگر بینظیر بھٹو چند ہی سال بعد ملک کی وزیر اعظم بن چکی تھیں۔

نواز شریف کی حکومت جنرل پرویز مشرف نے الٹائی تو خود جنرل مشرف کے قریبی ساتھی کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کے سیل میں ایک مرتبہ سانپ چھوڑ دیا گیا تو انہوں نے چلانا شروع کر دیا تھا۔ مشاہد اللہ خان نے چند برس قبل ایکسپریس نیوز کے ایک پروگرام میں واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جب ان صاحب سے پوچھا گیا کہ چلاتے نہ تو کیا جا کر سانپ سے ہاتھ ملاتے تو انہوں نے جھینپ کر جواب دیا تھا کہ سانپ کا زہر نکالنے کے بعد سابق وزیر اعظم کو ڈرانے کی غرض سے ان کے سیل میں چھوڑا گیا تھا۔

مریم نواز دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے کمرے اور باتھ روم میں کیمرے تھے یا ان کو چوہوں کا کھایا ہوا کھانا دیا جاتا تھا، یا پھر یہ کہ ان کو پھپھوندی لگی دوائیاں کھانا پڑیں، ان میں سے کوئی بھی دعویٰ تاحال ثابت نہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی بھی عمل ان سے بعید ہے۔

مریم نواز نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جس طرح کے ملک کے حالات ہوچکے ہیں، اس میں حکومت کاجانا بنتا ہے۔ صحافی کے سوال پر کہ جس طرف حالات جا رہے ہیں ہم کسی خوفناک حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں، مریم نواز نے کہا کہ میرا بھییہی خوف ہے۔ لوگوں کو حوصلہ کرنا پڑے گا، لوگ اٹھ رہے ہیں۔

اب لوگ اٹھ رہے ہیں یا نہیں، یہ تو پیر کو ملتان کا یا پھر 13 دسمبر کو لاہور کا جلسہ ہی بتائے گا۔ لیکن یہ طے ہے کہ مریم نواز بھی اسی روش پر چلنے سے باز نہیں آ رہیں جس کی سزا بقول ان کے، ان کے والد بھگت رہے ہیں۔ کیونکہ ملاقات کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھجنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا اور پھر لاشہ ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دے کر تاریخ میں امر ہوگئے ہیں۔ ہمیشہ نوکری نہیں بچائی جاتی، نوکری کے بعد بھی کچھ ہوتا ہے۔