گزشتہ روز قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سپورٹس گالا کے اختتام پر سٹیج سے ایک طالبہ نے شینا میں گانا گایا، وہاں موجود طلبا و طالبات نہایت جوش اور ولولے سے اس کو سراہتے ہوئے خوب ہلا گلا کیا جبکہ طالبات کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود اس پروگرام سے محظوظ ہوئی۔ پروگرام ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین شروع ہوگئی، نام نہاد اور جعلی سول سوسائٹی کے نام پر کے آئی یو انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر کےلیے درخواست دی گئی جبکہ طالبہ کے گانے کو بہت سارے لوگوں نے فحاشی قرار دیا ۔ جس جس کو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ناچ گانے اور سپورٹس ویک سے مسئلہ ہوتا ہے وہ اپنا علاج کروائیں۔
ہم تو شروع سے کہتے ہیں کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سیاسی، مذہبی اجتماعات، موسیقی کے پروگرام، مختلف نظریات پر مکالمے ہوں اور اس میں کسی فریق کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ کسی کو روکے۔ مشرف ہال، سبزہ زار میں سیاسی و مذہبی اجتماعات، محفل موسیقی (لڑکے ہو یا لڑکیاں ) کے محفل میں حصہ لے سکتے ہیں۔ کسی ایک صنف کو دیوار سے لگا کر یونیورسٹی کے اندر شدت پسندی، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو عام کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کi انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات واضح کریں اور ان کے اندر رہتے ہوئے اپنے معاملات آگے چلائیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے یونیورسٹی کو بلیک میل کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹے اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو ایک مختلف الخیال، ثقافت اور زبان و ادب کے لوگوں کےلیے پرسکون بنائے، پھر ہم کہیں گے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی آفرین آفرین۔۔۔
کسی گروہ کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ یونیورسٹی میں جب چاہے مذہبی پروگرام کے انعقاد کو روکے اور نہ ہی کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہیے سیاسی اجتماعات اور محفل موسیقی (ناچ گانے خواہ وہ لڑکے کریں یا لڑکیاں) کے راہ میں حائل ہو جائیں۔
مجھے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی انتظامیہ سے یہ شکوہ بھی ہے کہ وہ سیاسی اجتماعات پر پابندی عائد کرکے ہمیں گلگت کی سڑکوں پہ احتجاج پہ خوار کرتے رہے۔ بس ان سے گزارش ہے کہ یونیورسٹی کے اندر سیاسی اجتماعات، مذہبی اجتماعات، محفل موسیقی سب پر پابندی ہٹا کر سب کو پابند کریں کہ وہ یونیورسٹی میں جس قسم کی بھی تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں کسی کو زور زبردستی وہاں لے جانے پہ مجبور نہیں کریں گے۔ مختلف نظریات کی تقریبات کو روکنے کے بجائے اپنے تعلیمی معاملات پہ توجہ دیں گے تو یونیورسٹی دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے ہوئے حقیقتاً ایک بین الاقوامی جامعہ بن جائے گی۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اساتذہ کو بھی اس وقت سامنے آنے کی ضرورت ہے اور آپ سب سے گزارش ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو مجبور کریں تاکہ وہ یونیورسٹی کو بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
چند گھنٹے پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی تھی کہ " قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو بیرونی مداخلت سے پاک کیا جائے" اس پہ بہت سارے ناعاقبت اندیش افراد نے کہا کہ یونیورسٹی کے اندر فحاشی کو کنٹرول کرنے کےلیے بیرونی مداخلت لازمی ہے۔ ایک شخص نے یہاں تک کہا کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی خدانخواستہ گلگت بلتستان کے کلچر کو تباہ و برباد کرنے کےلیے مغرب کے اشاروں پر گامزن ہے۔
یہ سچ ہے کہ جہاں ہمارے نظریات سے ہٹ کر کوئی کام ہو ہم اس کو سازش، غداری اور بیرونی ایجنڈے سے تعبیر کرتے ہیں اور ہم اپنے خلاف سازشوں کا راگ الاپتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ایک طرف ثقافت کے ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایک سازش کے تحت ناچ گانے کا پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ہمیں مذہب سے دور کریں اور لبرلزم کو فروغ دے دیں۔
میرے خیال میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ہر سپورٹ ویک کے بعد ناچ گانے کا پروگرام ہوتا ہے اور ہمارے زمانے میں بھی یہ ہوتا رہا ہے اس طرح بڑے لیول پر نہیں تو چھوٹے لیول پر پروگرام ہوتے رہے ہیں۔ اس ناچ گانے کو طلبا و طالبات کی اکثریت نے خوب داد دی ہے، چند لڑکے ناچتے ہیں اور سیکڑوں سے زیادہ طلبا کھڑے اس محفل کو انجوائے کر رہے ہیں جبکہ طالبات اس پروگرام میں نیچے سکون اور اطمینان سے بیٹھ کر سن رہی ہیں، اس دوران کسی بھی طالب علم نے اس محفل کے خلاف نہ کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی بدتمیزی کا واقعہ سامنے آیا۔
اس ویڈیو میں جن جن افراد کو فحاشی نظر آ رہی ہے اور جو سمجھتے ہیں کہ اس محفل سے ان کا کلچر تباہ و برباد ہوگیا ہے ان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ ایک دفعہ سوچ لیں کہ آپ کا کلچر اس وقت تباہ و برباد کیوں نہ ہوا جب گلگت شہر میں دس سالہ بچے حسنین کے ساتھ زیادتی کرکے اس کو قتل کیا گیا؟
آپ کی ثقافت اس وقت خراب کیوں نہیں ہوئی جب اشکومن میں دیدار نامی نوجوان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟
کیا میرا اور آپ کا کلچر صرف خواتین سے ہی منسوب ہے؟ کیا ہمارے کلچر میں خواتین کا گانا گانا حرام اور مردوں کا "بی کے" بننا جائز ہے؟
خدا کےلیے سب کو جینے دو۔ ہاں اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ہر فرقے کے لوگوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ رہنے کا حق ہو اور وہ مذہبی اجتماعات منعقد کریں۔ ایک دوسرے سے سیکھیں بیرونی مداخلت یونیورسٹی کے اندر مذہبی تقریبات کے راہ میں روکاوٹ ہے اگر باہر سے مداخلت نہ ہو مذہبی تقریبات کے انعقاد کے لیے سب متفق ہوں تو یونیورسٹی انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ روکیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات مذہبی تقریبات پر متفق ہوتے ہیں اگلے دن واپس آکر وہ مکر جاتے ہیں جس کا اکثر دبے دبے الفاظ میں ذکر کرتے رہے ہیں کہ ہم اپنے معاملات کا فیصلہ مکمل آزادی سے نہیں کرسکتے ہیں۔
ایک دفعہ پھر سے گلگت بلتستان کے سیاسی، مذہبی جماعتوں،نوجوانوں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے مطالبہ ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں مذہبی،سیاسی اور ثقافتی تقریبات پر سے پابندی ہٹانے کےلیے مشترکہ طور پر یونیورسٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رہیں تاکہ انتظامیہ اپنے اندورنی معاملات طلبا و طالبات کے ساتھ مل کر سلجھانے کی کوشش کرے۔ جب تک بیرونی مداخلت بند نہیں ہوگی اس وقت تک قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی مفادات، مغالطات اور فسادات کا گڑھ بنے رہے گی اور اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔