کینیڈا کا شہر 'وینکؤور' جسے سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے

کینیڈا کا شہر 'وینکؤور' جسے سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے
کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد بین الاقوامی سفر کی پابندیاں کچھ نرم ہوئیں تو امریکہ میں موجود ہوتے ہوئے امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی سے کینیڈا کے شہر وینکؤور جانے کا پروگرام بنا۔یہ پروگرام صرف چند دن پر مشتمل تھا جو کہ یقیناً وینکؤور جیسے دلفریب مقام کی سیاحت کے لیے کم تھا۔مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔امریکہ اور کینیڈا کا بارڈر ساتھ ساتھ ہے مگر یہ ملک رقبے کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں اور صرف فلائٹ کا دورانیہ ہی محض چھ سے سات گھنٹے پر مشتمل تھا۔ فلائٹ میں دو سال سے زائد عمر کے تمام افراد کے لیۓ ماسک کا استعمال لازمی ہے۔

ایئرلائنز کا عملہ اب مسافروں کو ہر ایک سیٹ پر ساتھ ساتھ بٹھا رہے ہیں مگر سفر شروع ہونے سے قبل 72 گھنٹے کے دوران کرونا کے منفی ہونے کا ٹیسٹ کرانا اور ائیرپورٹ پر اس کا سرٹیفکیٹ دکھانا لازم ہے۔ وینکؤور ائیرپورٹ پر اترنے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر پر عملہ کم ہونے کی وجہ سے لمبی لائن کا سامنا کرنا پڑا۔امیگریشن آفیسر نے سفر کی وجہ پوچھی اور یہ کہ کتنے دن کا قیام ہوگا۔

وہاں سے فراغت کے بعد ایک مرتبہ پھر کینیڈین طبی عملے کی ٹیم نے تمام مسافروں کو گھیر لیا اور ائیرپورٹ پہنچنے پر کرونا کا ٹیسٹ لیا۔ مجھے تو بظاہر یہ ٹیسٹ محض وقت کا ضیاع ہی لگا تھا کیوں کہ آنے سے 48 گھنٹے قبل مسافروں کی اکثریت منفی ٹیسٹ کی رپورٹ لے کر عملے کو جمع کرا چکے تھے۔ قصہ مختصر وہاں سے فراغت کے بعد رات گئے اپنی منزل پر پہنچا۔ چونکہ میرا دورہ محض چند یوم پر مشتمل تھا مگر ان چند یوم میں بھی بہنوئی ہشام چوہدری نے حق میزبانی بھرپور طریقہ سے ادا کیا اور اس تاریخی اور خوبصورت سیاحتی مقام کی جس حد تک سیر ہو سکتی تھی وہ کی۔



وینکؤور، کینیڈا کے صوبہ برٹش کولمبیا کا شہر ہے اور یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے پہلے پانچ اچھے شہر جن کا معیار زندگی اعلیٰ ہے ان میں اس شہر کا شمار بھی ہوتا ہے۔وہاں مقامی باشندوں کی نسبت غیر ملکی اکثریت میں ہیں۔ مجھے جن علاقوں سے گزرنے یا جہاں رہنے کا اتفاق ہوا ان میں دیسی افراد بالخصوص پنجابی سکھ اور چینی باشندوں کی اکثریت تھی۔ ان علاقوں میں اگر آپ ہوں تو یوں لگتا ہے یا آپ پنجاب آ گئے ہیں یا پھر چین کے کسی شہر میں۔ پنجابی افراد ایک محنتی قوم ہیں جو کہ کینیڈا میں ٹرانسپورٹ سے لے کر زراعت اور تعمیر و مرمت کے کام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔اس شہر کا موسم کچھ حد تک نمی اور بارشوں والا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شہر کے گرد بحر اوقیانوس ہے۔



انڈین پنجابی فلموں کی کینیڈا میں ہونے والی زیادہ تر شوٹنگز اس شہر میں ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں قدرتی خوبصورت نظاروں کی بھرمار ہے، اس کے علاوہ اگر شہر کی بلندوبالا عمارات کو بھی کیمرے کی زینت بنانا ہو تو شہر کا نظارہ بہت خوبصورت ہے بالخصوص رات کے وقت اس کی بلندوبالا عمارات اور روشنیوں کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس علاقے کے یوں تو بیشمار تفریحی مقامات ہیں مگر مجھے جن چند مقامات کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، ان میں خاص طور پر کوئین الیزبتھ پارک، سٹینلے پارک، وینکؤور شہر کی عمارات اور سشپنشن بریج یعنی زمین سے سینکڑوں فٹ بلند ایک طرف سے دوسری طرف جانے والے پل شامل ہیں۔



وہاں رنگ برنگے کھیتوں کو دیکھ کر انکشاف ہوا کہ ان میں رس بیری، بلوبیری اور بلیک بیری کے پھل کی کاشت کی گئی ہے۔اور یہ پھل اس شہر کی بڑی پیداوار میں سے ہیں۔ وہاں دیسی کھانوں کے ریستورانوں سے لے کر عربی،ترکی اور چائنیز ریستورانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ چند دنوں کے لیے گیا تھا جو کہ بہت جلدی بیت گئے اور ان دنوں میں برادر ہشام چوہدری اور دیگر فیملی کی میزبانی کا جتنا لطف اٹھا سکتا تھا وہ اٹھایا۔اس میں کوئ شک نہیں کہ اللہ پاک کی بنائی دنیا بہت خوبصورت ہے اور ایسے خوبصورت قدرتی مناظر دیکھ کر بے ساختہ اللہ پاک کے لیے تعریفی کلمات منہ سے نکلتے ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔