الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے انتخابات کے التوا سے متعلق بیان پر الیکشن کمیشن نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ جنوری کے آخر میں ہونے والے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سےجاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے بروز بدھ نجی چینل پر انٹرویو کے دوران الیکشن کےانعقاد کے بارے میں تبصرہ کیا۔ ان کے بیانات کی وجہ سے یہ تاثر گیا ہے کہ شاید الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے اس کی پرزور تردید کرتا ہے کہ الیکشن ملتوی ہونے کا کوئی امکان ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی پوزیشن واضح کر چکا ہے۔ حلقہ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور اعتراضات دائر کرنے کا دوسرا مرحلہ کل یعنی 27 اکتوبر 2023 کو مکمل ہو جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے ساتھ ہی ابتدائی حلقہ بندی پر اعتراضات کی سماعت الیکشن کمیشن 30/31 اکتوبر سے شروع کرے گا اور 30 نومبر 2023 کو الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست شائع کر دے گا۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد کے لیے ایکشن پلان کے مطابق الیکشن کمیشن کی تمام تیاریاں مکمل ہیں اور حلقہ بندی کی حتمی اشاعت کے بعد انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی نےنجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے جنوری میں انتخابات کے حوالے سے کہا کہ جنوری میں انتخابات پر مجھے اعتماد نہیں ہے لیکن جب سپریم جوڈیشری نے اس بات کو نظر میں لے لیا ہے تو مناسب فیصلہ آئے گا۔
صدر پاکستان عارف علوی نے کہا کہ جب چاروں صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مدت مکمل ہونے پر ہی صدر کا انتخاب ہوگا اور یہ خلا پاکستان کے لیے غیرمناسب ہے کہ میں چھوڑ کر چلا جاؤں کیوں کہ آئین نے اس کا اہتمام کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان مشکلات سے گزر کر بھی جمہوریت کے راستے پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیئرمین کو اپنا لیڈر قرار دیتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے پاس عمران خان سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا بیانیہ آگے بڑھانے کا اچھا موقع ہے جو انہیں عوام نے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو لکھے گئے دو خطوط میں فرق کے حوالے سے سوال پر صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت میں نے خط میں لکھا تھا کہ انتخابات نہ کرانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں اس لیے میں نے اس خط میں واشنگٹن پر حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس صورت حال میں بھی وہاں انتخابات ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے خط میں لکھا تھا کہ ابراہم لنکن کو لوگوں نے کہا کہ ملک میں خانہ جنگی ہے تو انتخابات کیسے ہوں گے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کہا کہ انتخابات ہر حال میں ہوں گے لیکن اس خط کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
انتخابات ترمیمی بل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ جب اس کی منظوری دی گئی تھی تو وہ حج کے لیے ملک سے باہر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 57 (1) کو تبدیل کیا گیا مگر میں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ میں حج پر گیا ہوا تھا لیکن واپس آنے تک قائم مقام صدر نے اس ایکٹ پر دستخط کرلیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ قائم مقام صدر (صادق سنجرانی) پہلے ہی اس پر دستخط کر چکے تھے۔ اگر میں ایوان صدر میں ہوتا تو میں اس پر دستخط نہ کرتا۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہوجائیں۔ جس میں سب کو حصہ لینے کا موقع ملے۔