قومی سلامتی کے تحفظ کا فریب

قومی سلامتی کے تحفظ کا فریب
تیل کی تنصیبات پر ڈرون سے ہونے والے حالیہ حملے نے سعودی عرب کی قومی سلامتی کا پول کھول دیا ہے جو اربوں ڈالر کی لاگت سے امریکی ”آئرن ڈوم“ مہیا کر رہا تھا۔ ایک ہی حملے نے مشرق وسطی میں 8 امریکی عسکری اڈوں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی سلامتی کے نظام کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے "Locked and Loaded"  کے اعلان کو اہل دانش نے مسترد کر دیا ہے جو نہیں چاہتے کہ امریکی فوجیں سعودی عرب کے زرخرید غلاموں کا کردار ادا کریں۔ اسی سبب ایران بھی اقتصادی جنگ، پابندیوں اور مزید پابندیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنا تحفظ خود کرنے کے اصول کو اپنا چکا ہے اور اب اس کے خلاف کسی کو بھی جنگ کرنے کی جرات نہیں ہے۔

2007 کی اسرائیل حزب اللہ جنگ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ جہاں امریکہ کا آئرن ڈوم فضائی دفاع کا نظام (Iron-Dome Air Defense System)  حزب اللہ کے فری فلائنگ راکٹوں (Free Flying Rockets) کے مقابلے میں شکست کھا گیا تھا اور اسرائیل جنگ ہار گیا۔ اعلی تکنیکی (Hi-Tech) اور مہنگے ترین ہتھیاروں کا یہی جبر ہے کہ وہ سادہ اور کم قیمت ہتھیاروں کے مقابلے میں بے بس ہیں اور شکست کھا جاتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق یمن کے حوثیوں نے تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے 22 ڈرون اور کروز میزائل داغے جن میں سے اٹھارہ نے ابقیق (Abqaiq) کو نشانہ بنایا اور 4 نے اس کے قریب خمریس (Khumrais) کو نشانہ بنایا۔ جس کی وجہ سے متعدد دھماکے ہوئے اور آگ کے شعلے بلند ہوئے، جن پر قابو پانے میں کئی گھنٹے لگے۔ سعودی عرب کا بہت بڑا نقصان ہوا۔

مجھے یاد ہے کہ صدر کلنٹن نے 1998 میں افغانستان میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ پر 12 سو کلومیٹر کے فاصلے سے کروز میزائل فائر کئے تھے۔ ان میں سے 70 میزائل اپنے ہدف کے علاقے میں گرے جبکہ باقی ایک سو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں گرے جن میں سے بہت سے میزائل اچھی حالت میں تھے۔ جو پاکستانی ہنرمندوں نے اٹھا لئے اور ان کی ریورس انجنیئرنگ (Reverse Engineering) کر کے ٹومو ہاک (Tomo Hawk) میزائل کا ابتدائی نمونہ تیار کر لیا تھا۔ اب یہ صلاحیت صرف امریکیوں، ایرانیوں اور پاکستانیوں ہی کے پاس ہے۔ پاکستان اس کی رینج (Range) دو ہزار کلومیٹر تک بڑھا رہا ہے تاکہ بھارت کی آخری سرحدیں بھی اس کی زد میں ہوں۔

اب پومپیو کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایران کے خلاف جنگ سے اجتناب کرنا ہے۔ ہم خطے میں مزید فوجی بھیج رہے ہیں تاکہ جارحیت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس کا مقصد عربوں کو جھوٹی تسلیوں کے سہارے بے وقوف بنانا ہے۔ ادھر ایران نے خبردار کیا ہے کہ ہم گذشتہ چالیس سالوں سے ثابت قدم رہے ہیں، اگر کسی ملک نے ایران پر حملہ کرنے کی جسارت کی تو وہی ملک میدان جنگ بنے گا۔

حالات انتہائی تباہی کی جانب جا رہے ہیں اور میدان سج چکا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی نرم گفتاری کے سبب بھارت کا آرمی چیف ہماری تذویراتی تنصیبات پر حملے کی دھمکی دے رہا ہے اور ہم اس کے بیان کی وضاحتیں مانگ رہے ہیں۔

عربوں کے پاس اپنی حساس تنصیبات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قابل اعتماد دفاعی نظام حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایران کے ساتھ 2015 کے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کے بعد امریکہ اب خواہش مند ہے کہ ایران کو مزید پابندیوں پر مبنی نیا معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ دوسری جانب اقتصادی جنگ کا شکار ایران خلیج سے تیل کی تجارت میں رخنہ ڈال کر امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ اس پھیلتی ہوئی صورت حال کو مزید پھیلا کر توڑنے کا مقصد صورت حال میں غیر دانشمندانہ اضافہ ہی کرنا ہے جو ذلت آمیز پسپائی کا سبب بن سکتا ہے۔

متحارب گروہوں کی جانب سے دفاعی اقدامات جاری رکھے گئے ہیں۔ جیسا کہ امریکی سائبر کمانڈ نے ایرانی انقلابی گارڈز کے میزائل داغنے کے نظام کیلئے ان کے کمپیوٹر سسٹم کو ناکارہ بنایا تھا۔ اس تباہ کن صورت حال میں کسی قسم کی بھی معمول سی غلطی پورے خطے کو ایسی تباہی سے دوچار کر دے گی جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ یقینا اسرائیل بھی اس جنگ میں کود پڑے گا جو ایران، شام، عراق، لبنان اور یمن کو سخت تادیبی اقدامات کی دعوت دینے کا باعث ہو گا۔ جنگ کے ہتھیار میزائل، راکٹ، ڈرونز اور ہزاروں کی تعداد میں خودکش بمبار ہوں گے۔ جو مدمقابل ممالک کی قوت مدافعت توڑ دیں گے جبکہ اصلی ہدف اسرائیل ہو گا جس کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ لگتا ہے کہ ٹرمپ یہ رسک لینے کو تیار ہیں جس سے پورا خطہ تباہی کی نذر ہو جائے گا اور شاید یہی ان کا طویل المدتی ہدف بھی ہو۔

اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار اوزی روبن (Uzi Rubin)  اور ایرن ایٹزیون (Eran Etzion) کا کہنا ہے کہ ایران نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ تیار کر لئے ہیں۔ جو درست سمت گائیڈ کرنے کے نظام سے لیس ہیں اور تذویراتی اہداف کو بخوبی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایران نے ایسے میزائل اسرائیلی سرحدوں کے نزدیک اور مشرق وسطی میں متعدد ایسے مقامات پر نصب کر رکھے ہیں جو خطے کے تذویراتی توازن کو بدل سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سمیت کوئی ملک ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ جس کے خطے میں 8 عسکری ٹھکانے بھی ان میزائلوں کی زد میں ہیں۔ حزب اللہ اکیلے ہی تل ابیب کے کچھ حصے تباہ کر سکتا ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جسے گیم چینجر (Game Changer) کہتے ہیں۔ اسرائیل کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کو توڑنے کے لئے انہیں حزب اللہ کے صرف دو سو ایسے نظاموں کی ضرورت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ اب ایرانی صدر روحانی سے ملنے کے خواہش مند ہیں تاکہ الجھی ہوئی صورت حال کا کوئی حل نکالا جا سکے۔

ٹرمپ کے یار غار مودی کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ اب کشمیر کے حریت پسندوں کی مدد کے لئے دنیا بھر کے ممالک سے جہادیوں کی آمد شروع ہو گی۔ اس جنگ کا فیصلہ واشنگٹن میں نہیں بلکہ یہاں ہی ہو گا۔ لہٰذا دانشمندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکہ سفارت کاری کو کامیاب کرنے کا ہر موقع دے گا کیونکہ مغربی ایشیا میں تذویراتی برتری کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی صدر روحانی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہرمز امن اقدامات  (Hormuz Peace Endeavour (PEACE)  کا اعلان کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے۔

ماضی کے کچھ درخشاں حقائق ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے کہ کس طرح معمولی ہتھیاروں نے جنگ کے رخ بدل دیے۔ مثال کے طور پر:

  • 1987ء میں اسٹنگر میزائلوں نے روس کو افغانستان سے پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔

  • 1995ء میں بوسنیا کے مسلمانوں نے گرین ائرو اینٹی ٹینک مزائلوں  (Green Arrow Anti Tank Missiles) کی مدد سے سربیا کے قاتلوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا اور جنگ ختم ہو گئی۔

  • 2007ء میں فری فلائنگ راکٹوں کی وجہ سے حزب اللہ نے اسرائیل کو شکست دی تھی۔


ایران شام، عراق، لبنان اور غالبا یمن کے حوثیوں کے پاس بھی اسی طرح کے گائیڈنس کے نظام سے لیس میزائل اور ڈرونز ہیں۔ جس کے سبب پورے مشرق وسطی کا تذویراتی توازن تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے پاس بھی اپنا تذویراتی توازن قائم رکھنے کے لئے ایٹمی قوت کی بجائے ایسے ہی ہتھیاروں پر انحصار بہت سود مند ہو گا۔

مصنف پاکستان کے سابق آرمی چیف ہیں۔