اس بار معاملہ عادی مجرموں کا نہیں ہے۔ انہوں نے واضح طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ میوزک رکنے پر وہ کسی کرسی کے قریب بھی نظر نہیں آنا چاہتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہی کی مداخلت کے باعث اب میوزک رکنے والا ہے اور اس مرتبہ کرسی پر بیٹھنے سے ریاست کے جہاز کو ڈبونے کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لینے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ ایک نئے عدالتی نظریے کا معاملہ ہے۔ یہ نظریۂ ضرورت سے کچھ آگے کی چیز ہے؛ جو کہ آج کی ضروریات اور مسائل کے حل پیش کرتا ہے۔ یہ نظریہ البتہ عادی مجرموں والے نظریے سے متاثر ضرور ہے۔
فوج کے اندر اگر آزاد سوچ والے لوگ موجود ہوتے تو کیا وہ اقتدار پر اپنے غیر آئینی قبضوں میں کبھی کامیاب ہو سکتی تھی؟ اگر ایک کور کمانڈر کسی دوسرے کمانڈر کے زیر کمان علاقے میں محض اپنے ذاتی اختلاف کی بنا پر اپنی بٹالین لے کر پہنچ جاتا تو کیا فوج اتنی ہی طاقتور ہوتی جتنی کہ وہ ہے؟ اگر آرمی چیف کے حکم پر عمل کرنے سے پہلے ماتحت جرنیل اس حکم پر بحث کرنے لگ جاتے تو کیا اقتدار پر قبضہ ممکن ہو پاتا؟
ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ عمل فوج کے پورے ڈھانچے کو ہی برہنہ کر کے کمزور، بلکہ نعوذ بِاللہ جمہوری ہی بنا ڈالتا۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام ہی ہوتی ہے۔ نظم و ضبط ہی تو اصل طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معزز عدالت کے حالیہ اقدامات پر کوئی بھی قانونی تبصرہ فضول ہے۔ آخر ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ ایک ایسی جنگ جو قوم کی نجات کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ ایک ضروری جنگ۔
Sabre Rattling
اس کی مثال وہی ایٹمی ہتھیاروں والی ہے جس کی توجیہ ہمارے غریب ملک کے شہریوں کے سامنے چند دہائیاں قبل یہی پیش کی جاتی تھی کہ ہم انہیں استعمال نہیں کریں گے، لیکن یہ ہونے ضرور چاہئیں تاکہ ہم دکھا سکیں کہ ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ اس حکمت عملی کو sabre-rattling کا نام دیا جاتا ہے۔
مجھے یہ بات پاکستان نیوی کے ایک انتہائی جذباتی آفیسر نے سمجھائی تھی جب کئی سال قبل میں نے ایک ٹی وی شو میں سوال اٹھایا تھا کہ ہمیں میزائلوں اور طیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب ایسے شو کرنے کے بعد کسی ایسے آفیسر کی محض فون کال ہی آتی تھی جس کا چہرہ غصے میں سرخ معلوم پڑتا تھا۔ تب تک مستقل بے روزگاری اور شمالی علاقہ جات کی مفت سیر جیسی چیزوں کا رواج نہیں پڑا تھا۔ بنیادی طور پر یہ حکمت عملی تقاضا کرتی ہے کہ آپ کے پاس ایک بڑی سی چھڑی موجود ہونی چاہیے مگر آپ اسے استعمال نہیں کرتے۔ جب تک کہ بڑی ہی کوئی ضرورت نہ آن پڑے۔
اسی حکمتِ عملی کے تحت تو عدالت نے بھی وقت سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا ہے کہ جب بھی سپریم کورٹ پروسیجرز بل قانون کی شکل اختیار کرے گا، اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ عدالت نے اسے اپنی آزادی کے لئے خطرہ قرار دیا اور جب پارلیمنٹ انتخابات کے لئے فنڈز فراہم کرنے کو کسی صورت تیار نہیں تھی تو ترنت بنچ تشکیل دے کر اپنا ایٹمی ہتھیار چلا دیا۔
کیونکہ عدالت کے لئے یہ کرنا لازمی ہو چکا تھا۔ کیونکہ حکومت واضح آئینی ہدایات کو نظرانداز کر رہی تھی۔ کیونکہ اس کا مینڈیٹ ختم ہو چکا تھا۔ کیونکہ وہ عوام کے چیمپئن کی راہ میں حائل چوروں اور بدمعاشوں کا ایک گروہ ہے۔ کیونکہ یہ اناؤں کا مسئلہ بن چکا ہے اور انائیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس معاملے پر نہایت آسانی کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا تھا اگر روٹین کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا۔ لیکن یہ سب باتیں اب پلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے پانی کی طرح ہیں۔
عدالتی انتشار
عدالت یہاں Unity of Command یعنی طاقت کی مرکزیت کے فوجی نظریے سے ہی تو اپنی طاقت کشید کر رہی ہے۔ یہی تو ہمیں خاکی وردی میں ملبوس سرکاری افسران کے قصیدہ گو حضرات مدتوں سے سمجھاتے آئے ہیں کہ فوج کی عظمت کا راز ہی یہ نظریہ ہے۔ طاقت کے مراکز ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ فوج میں بغاوت کا بیج بونے کا نسخہ ہے۔
یوں شاید عزت مآب عمر عطا بندیال ہمارے آخری چیف جسٹس لیکن پہلے چیف آف جوڈیشل سٹاف کہلائے جا سکتے ہیں۔ ان کے ماتحت چند کارندے جوڈیشل انٹیلی جنس سربراہوں کے عہدوں کے لئے موزوں بھی ہیں کیونکہ ان کا طرزِ عمل ہمارے روایتی انٹیلی جنس سربراہوں جیسا ہی نظر آ رہا ہے جن کی طاقت ان کے اقدامات کے قانونی یا غیر قانونی ہونے میں نہیں بلکہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی صلاحیت میں پنہاں ہوتی ہے۔
مزا تو تب آئے گا جب موجودہ چیف صاحب اپنا عدالتی ہتھوڑا آنے والے چیف کے حوالے کریں گے۔ اور پھر وہ دن بھی آ کر رہے گا جب انہی میں سے کوئی ایک جج صاحب خود کو اتنا طاقتور محسوس کرنے لگیں گے کہ اپنے آپ کو مدتِ ملازمت میں توسیع بھی دے ڈالیں۔
سینیئر وکلا لکھ رہے ہیں کہ ملک میں عدالتی انتشار موجود ہے اور یہ اس ہمہ جہت بحران کا حصہ ہے جو اس ریاست کی بنیادیں ہلانے کے درپے ہے۔ تاہم، عدالتی انتشار محض ایک علامت ہے۔ عدلیہ کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی یہ تو ایک چھوٹی سی قیمت ہے۔
اب سپریم کورٹ پروسیجرز بل کے غلط استعمال کے محض خدشے کو بنیاد بناتے ہوئے اس پر قانونی رائے دے کر ہم پہلے ہی جرم ہونے سے قبل اس کا سدباب کرنے کے نظریے کو تو اپنا ہی چکے ہیں۔ اب اس سے اگلا مرحلہ فطری طور پر Animal Farm کے آئین میں یہی ترمیم بنتی ہے کہ تمام جج برابر ہیں لیکن کچھ جج دوسرے ججوں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں۔
عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔