ضلع ٹانک میں ایک ریلی سےاپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ تعریفیں کی جاتی ہیں جو غلط بھی نہیں ہیں کہ فوج نے قربانیاں دی ہیں۔ جوانوں نے ملک کے لیے جانیں شہید کی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اللہ قبول فرمائے پر آپ نے تو پیٹی اسی لیے باندھی ہے۔ آپ نے رینک اسی لیے لگائے ہیں اور تنخواہ بھی اسی چیز کی لیتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ہم جو رضاکار لوگ ہیں انہوں نے کتنے علما، کارکنوں کی شہادتیں دی ہیں جو اس ملک کے لیے ہیں کہ ہم آئین، قانون اور ملک کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خاکم بدھن، چھوٹا آدمی ہوں لیکن بات کرنے کی جرات کررہا ہوں کہ اگر ہم، یہ کارکنان، جمعیت علمائے اسلام اور مذہبی طبقے کے غریب لوگ ملک کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو فوج دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکتی تھی۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ’1973 کا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے، پاکستان کا نظام قرآن و سنت کے تابع ہوگا، حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور عوام اپنے نمائندوں کی وساطت سے اللہ کی نیابت کا فرض ادا کریں گے لیکن آج تک ایک قانون سازی بھی قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوئی۔
ہم نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے طاقت ور قوتوں کو کہنا ہے کہ آئین سے تجاوز آپ کر رہے ہو، قانون کو پامال آپ کر رہے ہو، ہم نہیں، آئین اور قانون ہمارے سر کا تاج ہے، آپ نے تو اسے اپنے پاؤں کے نیچے روندا، آئین و قانون کو ہم نے حاکم اور آپ نے گھر کی لونڈی سمجھا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سودا نہیں چلے گا، صحیح راستے پر آؤ، میں نے پارلیمنٹ میں جو حلف اٹھایا ہے آپ بھی اس کے پابند رہو، فوج نے بھی تو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا ہے، جب نئی بھرتیاں ہوتی ہیں تو باقاعدہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم نے سیاست میں کوئی حصہ نہیں لینا لیکن آج جب سیاست پوری ان کے کنٹرول میں ہے تو اس سے نظام کا آئینی توازن بگڑ جاتا ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہمیں اصولی سیاست کرنی ہے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور اس کی قیادت جے یو آئی کر رہی ہے، پورے ملک کی سیاست نے اگر آپ پر اعتماد کیا ہے تو ہم نے بھی قوم کےاعتماد پر پورا اترنا ہوگا۔