خضدار؛ ہندو محلہ کے رہائشی عوامی نمائندوں سے مایوس نظر آتے ہیں

ہندو محلے کے عوام ہر الیکشن میں بھاری تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں مگر اس کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں، کیونکہ یہاں کے منتخب نمائندے کسی کو جواب دہ نہیں اور خاص طور پر ہندو برادری اقلیتی گروہ ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ وہ کسی منتخب نمائندے سے باز پرس کر سکے۔

خضدار؛ ہندو محلہ کے رہائشی عوامی نمائندوں سے مایوس نظر آتے ہیں

دلیپ کمار خضدار میں ہندو محلے کے رہائشی ہیں۔ وہ تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور کئی نسلوں سے خضدار میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ گنجان آباد ہونے کی وجہ سے کئی مسائل کا شکار ہے۔ شہر کے مرکزی حصے میں ہونے کی وجہ سے یہاں زمینوں کی قیمتیں دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں جبکہ بازار کے ساتھ اور تجارتی سرگرمیوں کے قریب ہونے کی وجہ سے ہندو برادری اسی علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ خضدار میں زیادہ تر ہندو کمیونٹی کے لوگ دکانداری کرتے ہیں۔ وہ راشن اور جنرل سٹور سمیت دیگر دکانیں چلاتے ہیں۔

خضدار کے پوش علاقے میں زمینوں کی قیمت مہنگی

خضدار کے دیگر علاقوں میں ہندو برادری کو زمینیں خریدنے میں مشکلات کا سامنا نہیں رہتا مگر سکیورٹی خدشات اور عدم تحفظ کی وجہ سے ایسا کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ اس لئے دیگر علاقوں میں رہائش اختیار نہیں کرتے کہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے دور ہوں گے، کیونکہ صدیوں سے سب ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔

دلیپ کمار دکھی لہجے میں بتاتے ہیں کہ خضدار ہندو محلہ میں زمینیوں کی قیمیتیں کراچی کے پوش علاقوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں جنہیں خریدنا ایک عام ہندو باشندے کے لیے انتہائی مشکل ہے، جبکہ گھروں کے کرائے بھی دوسروں علاقوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں اس لیے چھوٹے چھوٹے گھروں میں کئی کئی خاندان مشکل حالات میں رہائش پر مجبور ہیں۔ ہندو کمیونٹی کے مطابق اس علاقے میں مکان کی قیمت ڈیڑھ سے دو کروڑ تک ہے اور ایک کمرے کا کرایہ 20 ہزار سے زائد ہے جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں زمینوں کی قیمت کم ہے۔

خضدار میں ہندو کہاں آباد ہیں؟

بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں مرکزی بازار اللہ والا کے عقب میں تنگ گلیوں اور چھوٹے مکانات پر مشتمل گنجان آباد علاقہ ہندو محلہ ہے جہاں ہندو برادری کی چھ سے سات ہزار نفوس پر مشتمل آبادی صدیوں سے رہائش پذیر ہے اور تجارت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ گنجان آبادی، کم رقبہ اور حکمرانوں کی عدم توجہ کے باعث ہندو محلہ (شاہی قلعہ کراچی روڑ) خضدار جہاں تعلیم، صحت، پانی، صفائی، عدم تحفظ اور بے روزگاری جیسے مسائل کا شکار ہے وہاں انہیں زمینوں کی اونچی قیمتوں اور مہنگے کرایوں کا سامنا بھی ہے۔ یہ علاقہ بہت کم رقبے پر ہے اور آبادی کافی بڑھ چکی ہے۔

خضدار میں ہندوؤں کے بڑے مسائل

ہندو محلے میں مقیم ایک 27 سالہ خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو محلہ خضدار کئی مسائل کا گڑھ ہے۔ خاتون کے مطابق ان کے علاقے میں تعلیم، صحت، صفائی اور روزگار کی سہولیات کا فقدان ہے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے مگر کپڑے سلائی کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں اپنے بھائی کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ مہنگائی سے تنگ خاتون کا کہنا ہے کہ سرکاری نوکری اور روزگار کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ بڑی مشکل سے اپنے گھر کے خرچے پوری کر پاتی ہیں۔ ہندو محلے میں تعلیم اور پانی کی سہولیات کا شکوہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے محلے کے لیے پرائمری سطح کا ایک سرکاری سکول ہے جو اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔

سکول چونکہ ہندو کمیونٹی کے پاس ہے اور اس میں ہندو کمیونٹی کے بچوں کے ساتھ ساتھ قریب آباد مسلمانوں کے بچے بھی پڑھتے ہیں جبکہ ہندو کمیونٹی کے بچے دیگر نجی سکولوں میں بھی پڑھتے ہیں۔ سکول ہندو آبادی کے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ تر چھوٹے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں اس مہنگائی میں ادا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں بلکہ کئی غریب گھرانوں کا مسئلہ ہے۔ مذکورہ خاتون کے مطابق ہندو محلے میں پانی کی عدم فراہمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لوگ ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ خضدار کے اس علاقے میں پانی کا مسلئہ موجود ہے اور یہاں کے تمام لوگ پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

آبی ماہرین کے مطابق خضدار میں پینے کے پانی کا انحصار زیر زمین پانی پر ہے اور خضدار کے چاروں اطراف زرعی ٹیوب ویلوں کے ذریعے روزانہ 18 گھنٹے پانی نکالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح ہر سال 50 فٹ گرتی جا رہی ہے اور اسی وجہ سے شہری علاقوں میں پانی کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق زیر زمین پانی زیادہ تر کاشت کاری کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔

ضلع خضدار میں رجسٹرڈ اقلیتی ووٹرز

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق جون 2022 تک ضلع خضدار میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 2503 ہے۔ ان میں 1356مرد ووٹرز جبکہ 1147 خواتین ووٹرز ہیں جبکہ خضدار تحصیل میں اقلیتی برادری کے سب سے زیادہ 2098 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔

خضدار میں ہندو کمیونٹی کی آبادی 6 سے 10 ہزار کے قریب ہے۔ ہندو محلہ مرکزی بازار کے عقب میں ہونے کی وجہ سے ہندو برادری یہاں خود کو کسی حد تک محفوظ سمجھتی ہے۔

تجارت کے پیشے سے منسلک ہونا انہیں جرائم پیشہ افراد کے لیے آسان ہدف بھی بناتا ہے۔ اگر بلوچستان کے گذشتہ دو دہائیوں کے حالات پر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ دگرگوں حالات کی وجہ سے بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ ہندو برادری کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

2021 میں وڈھ کے بازار میں ہندو تاجر اشوک کمار کو قتل کیا گیا تھا اور اس کے ردعمل میں تاجر برادری نے آر سی ڈی شاہراہ کو بھی احتجاجاً بلاک کیا تھا۔

وڈھ بازار سے نقل مکانی کرنے والے ایک ہندو تاجر نے ایک بین الاقوامی ویب سائٹ کو بتایا تھا کہ وڈھ بازار میں 70 کے قریب دکانیں ہندو کمیونٹی کی ہیں۔ ان کے مطابق 2013 میں وہاں کے حالات خراب رہے اور ڈیڑھ ماہ تک بازار بند تھے۔

یاد رہے مینگل قبیلے کے دو گروہوں کے درمیان حالیہ لڑائی سے وڈھ بازار کئی روز تک بند رہا تھا۔

خضدار کے ہندو عوامی نمائندوں سے کیا گلہ کرتے ہیں؟

مقامی تاجر دلیپ کمار شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خضدار کی اقلیتی برادری کی سیاست، حکومت اور سرکاری اداروں میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ان کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ اشوک کمار کو یقین ہے کہ سرکاری اداروں اور حکومت میں مناسب نمائندگی ملنے اور ان کے مسائل سنے جانے سے ان مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے، مگر انہیں شکوہ ہے کہ انتخابات کے بعد ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور منتخب نمائندے کم ہی ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دلیپ کمار چاہتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر سکیورٹی کا ایسا مربوط نظام تشکیل دیں تا کہ ہندو برادری کے لوگ دوسری جگہوں پر زمینیں خرید سکیں۔

خضدار کی ہندو کمیونٹی الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے

واضح رہے ہندو محلے کے عوام ہر الیکشن میں بھاری تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں مگر اس کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں، کیونکہ یہاں کے منتخب نمائندے کسی کو جواب دہ نہیں اور خاص طور پر ہندو برادری اقلیتی گروہ ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ وہ کسی منتخب نمائندے سے باز پرس کر سکے۔

بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے 5 نشستیں مختص ہیں اور یہ نشستیں سیاسی پارٹیوں کو جنرل الیکشن میں 5 فیصد سے زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد الاٹ ہوتی ہیں۔ اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں دہرے ووٹ کا حق دے کر اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق خضدار پی بی 38 خضدار ون میں 2018 کے الیکشن میں کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی تعداد 37363 تھی اور ٹرن آؤٹ 56.56 رہا تھا جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 66064 تھی۔

مقامی حکومتوں میں اقلیتی کوٹہ

لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت اقلیتی نمائندگی 5 فیصد ہے اور حالیہ بلدیاتی الیکشن میں اقلیتی کوٹے کے تحت میونسپل کارپوریشن خضدار میں ہندو اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 3 کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن سے سنیل کمار، دیو داس پروانا، میونسپل کمیٹی نال سے پانو رام اور میونسپل کمیٹی وڈھ سے بھجن لال منتخب ہوئے تھے۔

ہندو برادری کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ایک محدود علاقہ ہونے کی وجہ سے ہندو محلے کے مسائل دیگر علاقوں کی نسبت اتنے بڑے نہیں ہیں کہ حل نہ ہو سکیں مگر یہاں کے لوگوں کو مناسب نمائندگی نہ ملنے کی وجہ سے ان کا علاقہ عدم توجہی کا شکار ہے اور ان کے مسائل کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ صوبائی اور قومی سطح پر اقلیتی حوالے سے ان کی نمائندگی اکثر ایسے علاقوں کے لوگ کرتے ہیں جن تک ان کی رسائی ممکن نہیں، جبکہ مقامی سطح پر منتخب صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندے انتخابات جیتنے کے بعد پورے محلے کے مسائل حل کرنے کے بجائے محض چند خاندانوں کو نوازتے ہیں۔

خضدار کے علاوہ تحصل وڈھ میں بھی ہندو کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں جو زیادہ تر دکانداری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ قیام پاکستان سے پہلے سے اسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور تجارت کرتے ہیں۔

2018 کے الیکشن میں خضدار سے منتخب ہونے والے نمائندے

ضلع خضدار صوبائی اسمبلی کی 3 اور قومی اسمبلی کی ایک نشست پر مبنی بلوچستان کا ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں زہری، مینگل اور بزنجو قبائل کے سردار موجود ہیں۔ زہری خضدار چیف آف جھلاوان سردار ثناء اللہ زہری کا آبائی حلقہ ہے جہاں گذشتہ کئی انتخابات میں وہ جیتے آ رہے ہیں جبکہ وڈھ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا آبائی حلقہ ہے جبکہ نال کے حلقے میں بزنجو قبیلے کے سربراہ سردار اسلم بزنجو جیتے آ رہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں خضدار کے تین حلقوں سے سردار ثناء اللہ زہری، میر اکبر مینگل اور جمعیت علمائے اسلام کے میر یونس عزیز زہری رکن بلوچستان اسمبلی رہے ہیں۔

یاد رہے سردار اختر مینگل نے خضدار کی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی جہاں ان کی پارٹی کے میر اکبر مینگل رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہو گئے تھے۔ وہ خضدار سے قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو گئے تھے۔ 2013 کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے مولوی قمر الدین اور 2008 کے انتخابات میں میر عبدالرؤف مینگل منتخب ہو گئے تھے۔

نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو اس حوالے سے کہتے ہیں کہ نیشنل پارٹی نے ہر وقت اقلیتوں کے حقوق پر کام کیا ہے اور نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر اقلیتی نمائندے پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں۔ 2018 کے الیکشن کے بعد نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر اینڈریو مسیح رکن بلوچستان اسمبلی اور ڈاکٹر اشوک کمار سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔

علی احمد لانگو اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کوئی رکن پانچ سال تک پارلیمنٹ کا حصہ رہتا ہے تو اس کو عوام کے مابین رہ کر کام کرنا ہو گا تاکہ ان کا اپنا ایک حلقہ بنے۔ سیاسی پارٹیاں اقلیتوں کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دے کر منتخب کرواتی ہیں، اقلیتی رہنماؤں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر اپنے لئے ایک حلقہ بنائیں تاکہ وہ اپنے حلقے سے جنرل نشستوں پر الیکشن لڑ سکیں۔

نیشنل پارٹی کوئٹہ کے رہنما اور کیچ سے سابق ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر بھٹی کا کہنا ہے کہ ہمیں دہرے ووٹ کا حق دے کر اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے اور سیاسی پارٹیاں ایسے لوگوں کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ جاری کریں جو ہر وقت اقلیتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔

اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر تین مرتبہ جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والی آسیہ ناصر کہتی ہیں کہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستوں کو بڑھا کر ان کی نمائندگی بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے چار سے پانچ نشستوں کا اضافہ کر کے ان کی نمائندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں اقلیتی افراد بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔

نعیمہ زہری کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔