مصنف کو کرداروں پر حکم نہیں چلانا چاہیے: "آخر شب کے ہمسفر" پر تبصرہ

مصنف کو کرداروں پر حکم نہیں چلانا چاہیے:
"اگلی نسل ویسی نہیں رہی۔" یہ گلہ برسوں سے ہر نئی نسل کو دیکھنے والے کرتے آ رہے ہیں۔ یہ ہی بات اس ناول میں بھی ہے۔ پہلے وہ نسل خود بغاوت کرتی ہے اور جب اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور نئی پیڑھی جنم لیتی ہے اور وہ بھی باغی نکلتی ہے، مگر ان کی بغاوت میں اور پرانی پیڑھی کی بغاوت میں فرق ہوتا ہے، جو ظاہر ہے وقت کے ساتھ سب ہی تغیر کے بہاؤ میں مبدل ہو جاتا ہے۔ اور اب یہ بغاوت پرانے باغیوں کو پسند نہیں آتی۔ ہاں! وقت گزرا مگر باغیوں پر ردِ عمل وہ ہی رہا ہے۔ یہی توdeviance کی خاصیت ہے۔

ناول تقسیم کے بعد لکھا گیا ہے۔ اس کا اندازہ میں نے اس سے لگا لیا کہ تقسیم کے بعد کے واقعات بھی اس میں درج ہیں۔ یقیناً مصنفہ کو الہام تو آیا نہیں ہوگا۔ کہانی ایک معاشقے کی کہانی ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے کئی اور معاشقوں کو جنم دیتا ہے اور پرانے دبے ہوئے معاشقوں میں بھی جان بھر دیتا ہے۔ پھر اسی عشق کی روداد کو سیاسی تناظر میں دکھایا گیا ہے۔ جو اس وقت مارکسسٹ تھے ان کی تحریک سے اس معاشقے کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اتنا ہی گہرا جیسے مارکس کا اس تحریک سے ہے۔

مصنفہ نے بڑی خوبی سے اپنے کرداروں کو ان حالات میں داخل کیا کہ وہ حقیقت میں تقسیمِ ہند اور اس سے پہلے اور بعد میں ہونے والے حادثات یا بہتر ہوگا کہا جائے فسادات کی وجہ سے جو ایک عام انسان پر بیتا وہ بیان کر سکے۔ اس وقت کے لوگوں کی مختلف سوچیں تھیں، کوئی انگریز کو اچھا سمجھتا تھا، کوئی انگریز کو برا، کوئی انگریز کے ساتھ ہی ساتھ اپنے مذہب کے علاوہ ہر مذہب والے کو بُرا سمجھتا تھا۔ ان سب کی سوچ کی وجوہات کو تاریخی پسِ منظر میں قرۃالعین حیدر صاحبہ نے بڑے نرالے انداز میں بتایا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تاریخ پر اور اس کے پیچھے فلسفے پر بڑی گہری نگاہ ہے۔ یہ ناول کسی بھی متنفس کے لئے جو برِصغیر کی غیر جانبدارانہ تاریخ کو جاننا چاہتا ہے، ایک اچھا ذریعہ ثابت ہوگا۔

جس طرح ہمارے یہاں ناول لکھنے کا رواج انگریزوں سے پڑا اور جس صدی میں پڑا اس صدی میں ادھر بھی ناولوں کو بے جا طول دیا جاتا تھا۔ ابھی بھی ہم کلاسک ناول اٹھا کر دیکھ لیں، سوائے چند ناولوں کے، باقی سبھی کو بلا ضرورت طول دے کر کھینچا گیا ہے۔ اس زمانے میں شاید لوگ پڑھ سکتے ہوں مگر اب تو یہ ناممکن ہے۔ قرۃالعین حیدر نے بھی اس ناول کو غیر ضروری تفصیل دے کر اس ناول کی طوالت میں اضافہ کیا ہے۔ کیونکہ اگر وہ تمام چیزیں نہ بھی ہوتیں تب بھی یہ ناول اچھا ہی رہتا اور اس کا اصل مادہ بھی ویسا ہی رہنا تھا۔ مگر غالباً اس زمانے کے تقاضے ہوں گے جو انہیں اسے لمبا کرنا پڑا اور باقاعدہ ہنر مندی سے کیا۔

آخر میں صرف یہی کہ یہ ناول کافی تحقیق کے بعد لکھا گیا ہے۔ ناول میں جگہ جگہ مختلف فلسفیوں کے حوالے ملتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھاری ایک بہت اچھی قاری بھی تھیں۔ مگر ناول میں کئی جگہ ان کا یہ قاری پن ان کے لکھاری ہونے پر غالب آتا دکھائی دیتا ہے۔ گویا جو انہوں نے پڑھا وہ بتانے کے لئے ناول لکھ رہی ہوں۔ کہیں لگ رہا تھا کہ زبردستی کرداروں سے خاص مکالمے کہلوائے گئے کیونکہ وہ خود کہنا چاہتی تھیں۔ اس میں کردار کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ میں تو اسے کرداروں سے ساتھ زیادتی کا نام دوں گا۔ لکھاری کو کرداروں پر حکم نہیں چلانا چاہیے بلکہ انھیں سمجھنا چاہیے، ان کی طینت کے مطابق اور ان حالات کے مطابق، جن میں وہ کردار اس وقت ہوں، مکالمہ ہونا چاہیے۔ افسانوی کردار مٹی سے نہیں قلم سے بنتے ہیں، مگر ان میں بھی انہیں مٹی کی مخلوق ایسے احساسات ہوتے ہیں، ان کا بھی ضمیر ہوتا ہے۔ سب کچھ ویسے ہی ہے۔ اور اگر یہ خوب صورتی سے قلم بند ہوئے ہوں تو امر ہو جاتے ہیں۔ پھر انہی کے باعث لکھاری بھی امر کہلاتا ہے۔

خالد حسینی کی "مریم" ابھی بھی جابروں سے تنگ آ جاتی ہے اور اختر رضا سلیمی کا "ولی خان" بھی کہیں نہ کہیں جندر کی کوک کے لئے ترستا ہے۔

جاتے جاتے اس کے عنوان 'آخر شب کے ہم سفر' پر کچھ کہے جاتا ہوں کہ اس عنوان میں سورج کے غروب ہونے کا ذکر ہے اور ناول کی آخری سطر کے آخری لفظ میں 'طلوع ' ہونے کا ذکر ہے۔ سورج جب غروب ہوتا ہے تو طلوع بھی ہوتا ہے، یہ ہمسفر چلے گئے تو کیا اور آ جائیں گے۔ رات کوئی پہلی بار تو نہیں آئی، برسوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اور ایسا ہوتا رہے گا۔

آخری سطر ملاحظہ کریں۔

"لاکھوں برسوں سے سورج اسی طرح طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور طلوع۔"