مسافر،بتا تیری منزل کہاں ہے ؟

مسافر،بتا تیری منزل کہاں ہے ؟

یہ ملک عطائے رب جليل ہے ، پرکھوں کی امانت ہے ۔ آگست کا مہینہ بھی شروع ہونے والا ہے۔ 14 اگست يوم آزادی ہے ۔ رویت ہلال کمیٹی کے مطابق عیدالاضحی يكم اگست کو ہوگی ۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم رک کر، ٹھہر کر اس پر غور کر لیں کہ کہیں ہم "آزادی" کی نعمت کو نہیں بھول گئے ۔


کفران نعمت کے تو مرتكب نہیں ہو رہے۔ قدرت کا ایک تازیانہ 1971 میں پڑا اور ملک دو لخت ہوگیا۔ بقیہ ملک کو پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے نیا پاکستان کے نام سے منسوب کیا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت " نیا پاکستان" بنانے پر مصر ہے ۔ کوئی ہے جو ہمیں پرانا پاکستان لوٹا سکے جہاں لوگ بے شک غریب تھے ، مگر وہ دل کے امیر تھے ان میں خوئے دل نوازی تھی۔ گھروں کے کواڑ کھلے ہوتے تھے ، لوگ اپنی نیند سوتے اور اپنی نیند اٹھتے تھے ۔


نہ کلاشنکوف تھی نہ ہیروئن نہ شیشہ نہ تشدد نہ عدم رواداری نہ بوالہوسی نہ فلک بوس عمارتوں کے مقیم ہ بونے۔ رشتوں کی قدر تھی اور بڑے اور چھوٹوں میں ایک حد فاصل تھی ۔ اب ٹی وی ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے ، رشتوں کا جس طرح تمسخر اڑایا جاتا ہے ، اگر وہی ہمارا کلچر ہے یا بنا دیا گیا ہے تو خدا کی پناه ! گزرے وقتوں کی خراب سے خراب فلم بھی آج کے ٹی وی ڈراموں کے مقابلے میں" پاکیزه" لگے گی ۔ کدورتیں ، حسد، کپتہ ، غیبت، بہتان ، دشنام طرازی اور عورتوں کو "دو ٹکے کی عورت" سمجھنا ہمارا قومی وتیره بن چکا ہے ۔ یہ ہماری ترقی ہے یا ترقی معکوس ؟



چلیے، مذہب کو نہ مانیے - خدا کی بھی نہ سنیے - کوئی پیمانہ ، کوئی اقتدار تو ہونگی جنہیں آپ سرخ لکیریں red lines سمجھ کر پھلانگنے سے رک جائیں ۔ ایک دوسرے کو گرا کر ، رسوا کر کے اگلی صفوں میں بیٹھ جانا یہ کونسا کلچر ہے ؟ وعدوں ، منشوروں اور خواب فروشی کے بعد وعدوں ، نعروں سے مکر جانے پر فخر کا اظہار کرنا اور اسے حکمت جاننا کونسا کلچر ہے ؟
ہم نے 1947 میں جو وعدے کئے ، وه پورے نہ کئے ۔ 1977 میں ، ایک تحریک برپا کرکے جو وعدے کئے ، وه بھول گئے اور حال ہی میں عمران خان صاحب نے جو وعدے کئے ، وه ہوا ہوگئے۔
       قوم اس وقت بے سمت ہے، ہوا کے دوش پر اڑنے والے اس پتے کی طرح ہے ، جسے ہوا جہاں چاہے اڑا لے جائے ۔ سمندر میں ڈگمگاتی کشتی کی طرح ہے ، جس پر قدرت رحم کرے تو وه ساحل تک پہنچ بھی سکتی ہے ، لیکن قدرت ، معاملہ ، ملاح کے فہم و فراست پر چھوڑ دے تو عین بیچ منجھدھار ڈوب بھی سکتی ہے۔



امریکی جریدے ، فارن افیئرز میں ایک مضمون شائع ہوا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین ریاست کبھی نہیں بن سکے گی ، كيونکہ نہام نہاد مسلم امہ نے زمینی حقيقتوں سے دوستی کر لی ہے ۔ او آئی سی اور اس کے ترجمان سعودی عرب اب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں - غزه میں جہاں حماس کی حکومت ہے ، وه ایک محصور شده علاقہ ہے۔ وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہوگئی ہے اور اسرائیل کے معروف اخبار Haaretz کے مطابق نوجوان خودکشیاں کر رہے ہیں ۔ کھانے پینے کی اشیاء و پیڑول جو زیر زمین سرنگوں کے ذریعے ان تک پہنچتا تھا ۔ اُسی کے دہانوں کو مصر نے بند کردیا تھا ۔ باقی فلسطینی علاقے، ویسٹ بینک کے شہر رملہ ، جہاں فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے)، جس کے صدر محمود عباس ہیں ، کی حکومت ہے تو اس کا کام یہی ہے کہ وہ اسرائیل کی باجگزاری کرتی رہے۔ اور فلسطینی مظاہروں کو کچلتی رہے۔



کشمیر کا بھی حال کچھ مختلف نہیں ۔ اقوام متحدہ میں انگریزی تقریریں کرکے ہم کشمیر کو آزاد کروانا چاہتے ہیں اور اب یہ امید چین سے لگا لی ہے کہ وہ ہمارے لیے نہ سہی ، اپنے لیے ہی کشمیریوں کی آزادی کو ممکن بنائے گا ۔ گراں خواب چینی تو سنبھلنے لگے اور ہم نے " سوٹا" لگا لیا ہے۔



    خارجہ پالیسی ہم نے "قومی نصاب" سے خارج کردی ہے اور وزیر خارجہ نیب قانون کی از سرنو تدوین میں مصروف ہیں۔ رہے متعلقہ وزیر قانون تو موصوف پر مورخ جو تبصره کرے گا ۔ اُسے پڑھ کر ان کی آنے والی نسلوں کو کوئی خوشی نہ حاصل ہو گی ۔ قدرت کو جب کسی قوم پر ترس آتا ہے تو اسے اچھا لیڈر دے دیتی ہے ۔ لیڈر اور قافلہ سالار جب خود اندھیرے میں تیر چلا رہا ہو ، اس کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوں ، معافی اس کی لغت میں نہ ہو۔ وہ نرگسیت کا شکار ہو ، مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو اور جو منہ کھولے ، اس کے منہ میں آگ کا گولہ رکھ دیا جائے تو نوجوان یہ سمجھنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ ہماری منزل کیا تھی ۔ ہم کہاں جانا چاہتے تھے اور کہاں آگئے ہیں ۔ کیا ڈرائیور کو منزل کا علم ہے بھی یا نہیں ۔
مایوسی کو کفر کہا گیا ہے اور امید کا دامن کبھی نہ چھوڑنا چاہیئے۔ یہی آندھیوں اور اندھیرے میں آدمی کو حوصلہ دیتی اور زندہ رکھتی ہے لیکن اگر امید ہی ٹوٹ جائے تو کوئی بھی جینا نہیں چاہتا ۔
بڑھتی ہوئی خودکشیاں اسی امید کے ٹوٹنے کی کہانیاں ہیں۔ کوئی ہے جو اس قوم کی نیّا کو پار لگائے۔ ڈرائیور کی نظر خراب ہو جائے یا تیز روشنیاں اور زمینی حقیقتیں اس کی آنکھوں کو چندهیا دیں ۔ اب "گھبرانا نہیں" کا وقت گزر چکا۔ لمبی تان کر سونے کا وقت نہیں رہا۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں ، محکوم کشمیریوں اور مظلوم فلسطينیوں کی حالت زار سے کچھ سیکھنے کا وقت ہے ۔ ہوش میں آئیں۔


اس سے پہلے کہ بقول ناصر کاظمی


شکستہ پا راه میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ


مضمون نگار شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں اور انگریزی اخبارات کے کالم نگار ہیں۔ ان سے رابطہ ای ميل zaeem.bhatti89@gmail.com پر کیا جا سکتا ہے اور ٹوئٹر پر ان سے بات کرنے کے لئے ان کا ہینڈل ہے: @zaeem8825