پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحافت کا پیشہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور ایسے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر صحافیوں اور دیگر میڈیا کارکنوں کے تحفظ اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے جو دو سال سے عمل درآمد کی منتظر ہے۔
ملک میں صحافت کا پیشہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک ہوتا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ عدم تحفظ کا احساس ہے۔ صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے دوران جسمانی تشدد اور قتل جیسی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں صحافیوں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں، دہشت گرد اور عسکریت پسند گروہوں اور خفیہ قوتوں کی طرف سے بعض تحقیقاتی سٹوریز کی وجہ سے ہراساں کیا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین کے تحت صحافی کو کسی بھی تحقیقاتی سٹوری کے لئے معلومات کے ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صحافی اپنا ذریعہ پہلے بھی نہیں بتاتے تھے جب انہیں تفتیش کے دوران جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ نجی چینل کے پروگرام میں حامد میر نے اگست 1990 کا ایک واقعہ بیان کیا جب انہوں نے خبر فائل کی کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ابھی خبر فائل ہوئی تھی، شائع نہیں کہ دفتر کے استقبالیہ سے کال آئی کہ کچھ لوگ انہیں ملنے آئے ہیں۔ جب استقبالیہ پر پہنچے تو کچھ لوگ ان پر کمبل ڈال کر ایک نامعلوم جگہ پر لے گئے۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ جو تم نے خبر فائل کی ہے اس کا سورس کیا ہے؟ حامد میر کو سورس نہ بتانے کی وجہ سے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھ آ گئی تھی کہ کس ادارے نے انہیں اغوا کیا ہے۔ کچھ دیر کی تفتیش کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
مگر آج کے جدید دور میں صحافیوں کو اغوا کرنے کے بعد کئی دنوں اور مہینوں تک غائب کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کا نوجوان سلیم شہزاد اسلام آباد اس لئے منتقل ہوا تھا کہ شاید وفاقی دارالحکومت زیادہ محفوظ جگہ ہے مگر اسے 'محفوظ' شہر سے بھی اٹھا لیا گیا۔ پھر منڈی بہاؤ الدین کی ایک نہر سے اس کی لاش ملی۔
ایسے دردناک واقعات کو بیان کرنا آسان نہیں۔ اگر صحافیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے تو کیوں حکومتی ادارے پس پردہ قوتوں کو روکنے مں ناکام ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ کے تحت حکومت صحافیوں کے لئے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی یا قومی سلامتی سے متعلق موجودہ یا مستقبل کا کوئی بھی قانون صحافیوں کے کام میں دشواری پیدا کرنے کے لیے اور ان کو خاموش کروانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ کسی بھی صحافی کو اپنے صحافتی فرائض سرانجام دینے پر اغوا کیا جائے گا اور نا ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔
28 مئی 2021 کو سندھ اسمبلی نے سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس کے بعد نومبر 2021 میں وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 بنایا گیا۔ تاہم ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی باقی تین صوبوں میں یہ قانون اب تک نہیں بن سکا۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے صحافی کیوں اس قانونی حفاظت سے محروم ہیں؟ کیا باقی تین صوبوں کے صحافیوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنی والی تنظیموں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ مل کر حفاظتی ڈھال کا اہتمام خود کر لیں؟
وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ تو بن گیا مگر اس کے تحت ایک ایسا کمیشن بھی بنایا جانا تھا جو صحافیوں کے تحفظ کا پابند ہو گا۔ اس کمیشن کو سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا چاروں صوبوں سے ایک ایک نمائندہ اس کمیشن میں ہو گا۔ نیشنل پریس کلب اور ہر صوبائی پریس کلب سے بھی ایک ایک نمائندہ اس میں شامل ہوگا۔ اس کمیشن میں انسانی حقوق اور وزارت اطلاعات سے بھی ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا اور کمیشن میں کم سے کم تین خواتین بھی ہوں گی۔ کمیشن کا چیئرمین ایک ریٹائرڈ جج یا قانون دان ہو گا۔ چیئرمین کا اپنی فیلڈ میں تجربہ 20 سال کا ہو گا۔
صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ، شکایات کی آزادانہ تفتیش اور فوری ازالہ کیلئے قائم ہونے والے اس مجوزہ کمیشن میں تمام تفصیلات پیش کی جائیں گی جس کے بعد کمیشن 14 روز میں اس کے متعلق فیصلے کا پابند ہو گا۔ صحافیوں کے حفاظتی کمیشن کے اختیارات کی بات کریں تو یہ کمیشن اپنے آپ میں عدالت ہے۔ کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مجوزہ قانون میں میڈیا مالکان پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ ہر صحافی کو نوکری پر رکھنے کے ایک سال کے اندر انہیں ذاتی حفاظت سے متعلق تربیت دینے کے بھی پابند ہوں گے۔
جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی حامد میر پر اپریل 2014میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں ان کے بھائی عامر میر نے ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حامد میر کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ انہیں دوبارہ حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں'۔
اس واقعے کی تحقیقات کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن بھی بنایا تھا مگر افسوس کہ اس کمیشن کے سامنے وہ پیش نہیں ہوئے جن پر عامر میر نے اس حملے کا الزام عائد کیا تھا اور نا ہی حامد میر کو آج تک اس کمیشن کی رپورٹ ملی۔ افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم کے بنائے ہوئے کمیشن کی رپورٹ میں ایک سینیئر صحافی پر قاتلانہ حملے میں پس پردہ عناصر کو بے نقاب نہیں کیا جا سکا تو کسی دور دراز کے علاقے میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے والے صحافی کو کسی قسم کے انصاف یا تحفظ کی امید کیسے ہو گی؟
ملک بھر میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے والے صحافی ویسے تو صوبائی سرحدوں کے پابند نہیں مگر پھر بھی اپنے صوبوں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ آئین پاکستان کی اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں۔
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد صحافیوں کی سیفٹی جس میں تشدد، اغوا اور ذہنی تشدد جیسے معاملات میں بھی صوبوں کی پولیس تحفظ دینے کی پابندی کے ساتھ ساتھ تفتیش کی بھی ذمہ دار ہے۔
دی نیوز سے وابستہ صحافی شیر علی عرصہ دراز سے تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کے لیے صحافی برادری سرگرم ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاست دان اس موضوع کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ سیفٹی ایکٹ کے حوالے سے سول سوسائٹی کی تنظیموں، صحافیوں، پریس کلبوں کی اعلیٰ قیادت نے حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں جن میں صحافیوں کو کام کے دوران درپیش مسائل، صحافیوں کے قتل، اغوا برائے تاوان، تشدد، گھروں سے اغوا جیسے واقعات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
مطیع اللہ جان، شاہد اسلم، اسد طور، صدیق جان، عماد یوسف اور بلال فاروقی جیسے صحافیوں کی حالیہ گرفتاریوں میں اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ صحافی سے اس کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے مگر یہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔
شاہد اسلم کیس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسر نے خود عدالت کو بتایا کہ 'فونز اور کمپیوٹرز کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور پاس ورڈز جاننے کے لیے فرانزک کے لیے بھیجے گئے تھے'۔
صحافی اسد طور کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ان کے اپارٹمنٹ میں جا کر تین لوگوں نے زد و کوب کیا، ان کے ہاتھ پیر باندھے، ان کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن یہ قانون حملہ آوروں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
وفاقی سطح پر اور سندھ میں صوبائی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کو بنے 2 برس بیت گئے مگر ابھی تک اس کا مرکزی حصہ نامکمل ہے یعنی سیفٹی کمیشن کا وجود صرف دستاویزات تک ہی محدود ہے۔ کمیشن بنے اور نا ہی صحافیوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔
فریڈم نیٹ ورک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے 2021 میں بنائے گئے قوانین کے باوجود ملک میں 11 صحافیوں کو قتل جبکہ 70 کے قریب صحافیوں کو دھمیکوں، مقدمات اور پرتشدد واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا صحافی رپورٹ درج کرواتے ہیں؟ اگر یہ کہا جائے کہ جن صحافیوں کا تعلق چھوٹے شہروں سے ہے، انہوں نے کبھی رپورٹ درج نہیں کرائی ہو گی تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو گی۔ وہ صحافی جو وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کے علاقوں میں اپنی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں کیا وہ اپنے تحفظ کے لئے پولیس میں رپورٹ درج کرواتے ہیں؟ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کسی حد تک اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ سب سے زیادہ 56 کیسز جو کہ 40 فیصد بنتے ہیں دارالحکومت اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ یہاں صحافیوں کو رپورٹ درج کروانے میں زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ 2021 میں قانون بننے کے بعد سے اب تک کمیشن کے نہ بننے کی وجہ جو سامنے آ رہی ہے وہ انفارمیشن ڈیپارنمنٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے رکاوٹیں ہیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ کمیشن کے غیر سرکاری ارکان جن میں پریس کلب کے ممبر، بار کونسل کے نمائندے اور صحافی شامل ہیں، ان سب کا انتخاب تو ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ کمیشن کے چیئرمین کے ناموں پر بھی کسی حد تک اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ دو وفاقی اداروں ہیومن رائٹس کمیشن اور وزارت اطلاعات و نشریات میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی کا شکار ہے۔ آپ کو یاد ہو گا جب یہ قانون آیا تھا تو شیریں مزاری اور اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوھری میں اس بل کو لے کر اتفاق نہیں ہوا تھا۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں اس قانون میں ترمیم کروا کر اس میں سے ہیومن رائٹس کمیشن کے اختیارات کو ختم کر دیا گیا ہے۔
چیئرپرسن ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن پاکستان فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ 'اگر اس کمیشن کی کمپوزیشن دیکھی جائے تو پریس کلب کے ممبر بھی سیفٹی کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ پریس کلب کے بڑے عہدوں جن میں نائب صدر، جوائنٹ سیکرٹری اور ایگزیکٹیو باڈی میں بھی دو خواتین ہیں۔ فوزیہ کلثوم صحافی سیفٹی کمیشن کے لیے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا بھی حصہ تھیں۔ اس میں انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ 'صوبائی اور وفاقی کمیشن میں خواتین صحافیوں کو بھی نمائندگی دی جائے'۔ صحافیوں کے تحفظ کے لئے سیفٹی کمیشن کی تشکیل ہو جائے تو بہت سے صحافی کسی خوف کے بغیر اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا کا کہنا ہے کہ کمیشن ایکٹ کے مطابق چاروں صوبوں سے پی ایف یو جے کے چار سیکرٹری، پریس کلب کے جنرل سیکرٹری اور سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے نام حکومت کو بھجوا دیے گئے جبکہ وزارت ہیومن رائٹس سے سہیل علی خان بھی اس کمیشن کے ممبران میں شامل ہیں۔ 'حکومت کی جانب سے اس کمیشن میں تاخیر کی جا رہی ہے'۔ صحافیوں کے لئے وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ بن تو گیا مگر صحافیوں کو اس قانون کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ صحافیوں کے لیے اس سلسلے میں کسی تربیتی ورکشاپ کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے 2022 میں پریس فریڈم سے متعلق اعداد و شمار جاری کیے جن کے مطابق 180 ممالک میں سے 28 ایسے ممالک کی نشاندہی کی ہے جن میں صحافیوں کی آزادی کے متعلق حالات انتہائی خراب قرار دیے گئے ہیں۔ روس ایک ایسا ملک ہے جس میں ریاستی اداروں کو صحافت پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایسے ملک جہاں صحافیوں کی آزادی ایک سوالیہ نشان ہے ان میں پاکستان کا نمبر 150 واں ہے جبکہ بھارت 161 ویں نمبر پر ہے۔
قوانین ہونے کے باوجود صحافی دھمکی یا ہراسانی کے واقعات کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے، انہیں صرف دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور سوشل میڈیا تک محدود رکھتے ہیں۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل 19 (اے) کے تحت ہر شہری کو مفاد عامہ سے متعلق معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔