ہرچند کہ ڈاکڑ یاسمین راشد جہل کی پھبتی کسنے پرلاہوریوں سے معافی مانگ چکی ہیں مگر تلملانے والوں کو ان سے باقی شہروں کے باسیوں کو استثنیٰ دینے کی وجہ ضرور پوچھنی چاہیے۔ اگر ڈاکڑ صاحبہ کی نظر میں جاہل ہر وہ شخص ہے جو کورونا وائرس کی سنجیدگی اور اس سے جڑے خطرات کا ادراک نہیں کررہا ہے تو ان کا اپنے عطا کردہ لقب کو لاہور کے باسیوں تک محدود رکھنا صریحاً زیادتی تھی ۔
ویسے بھی کورونا وائرس کے دور میں شہریوں سے ان کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کی امید بھی کیسے کی جا سکتی ہے ، جب ان کو شعور و آگاہی فراہم کرنے کی ذمہ داری "ایڈیٹ باکس" کے ان ’’عقل کلوں‘‘ کے پاس ہے جنہیں خود عقل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں ہکچکاہٹ کا سامنا ہے ۔ صنعت مبالغہ آرائی سے تعلق رکھنے والی بیشتر نامور ہستیاں وائرس کے خلاف عوام کو لاپروائی برتنے پر آمادہ کرتے نظر آئے لیکن جس طریقے سے محترم جاوید چوہدری نے اپنی ” صلاحیتں “استعمال کیں ان کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔
یکم مئی کو چوہدری صاحب نے اپنے یوٹیوب چینل پر نوید سنائی کہ 18 مئی کو ثریا ستارہ کے ظہور کے ساتھ ہی کورونا وائرس کا زور ٹوٹ جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا تاریخ گزر جانے کے بعد موصوف اپنی اس غلط گوئی پر شرمسار ہوتے مگر موصوف نے نا صرف 8 جون کو لکھے گئے "نومبر تک" نامی کالم میں کورونا کے خاتمے کی نئی تاریخ دی بلکہ 213 ملکوں میں لاک ڈاون ختم ہونے کا سہرا بھی ثریا ستارے کے سر باندھا۔
اس سے پہلے کہ اس موضوع پر ان کی غلط بیانیوں پر روشنی ڈالی جائے موصوف کو آگاہ کرتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے ہفتے تک دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد ’ایک کروڑ ہو جائے گی ، اب تک ساڈھے چار لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ ہمارے ملک کا شمار بھی ان چار ممالک میں ہو چکا ہے جہاں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہے ہے ۔ جن میں یقینا محترم جاوید چوہدری صاحب کی غلط فہمیوں سے جڑی خوش فہمیوں نے بھی کردار ادا کیا ہو گا جس میں حقیقت کا رنگ ڈالنے کے لئے سائنس اور مزہب کو بھی بے دردی سے استعمال کیا گیا۔
کالم نگار جنہوں نے ثریا ستارے کے متعلق مسند احمد کے تین احادیث کو درمیان میں لا کر وبا کے چھٹ جانے کی منطق گھڑی دراصل انہوں نے ان احادیث کی تشریحات میں جانتے بوجھتے تصرف کیں ۔
علما کرام کی اکثریت کے مطابق طلوع ثریّا پرلفظ ’’عاھة‘‘ کا مغی پھلوں کی بیماری کا دور ہونا ہے اور اس کا پس منظر پھلوں کی بیماری ختم ہونے تک اس کی تجارت کی ممانعت تھی ۔ جبکہ ثریا ستارہ کے ذکر کی وجہ عربوں کے ہاں شمسی مہینے متعارف نا ہونے کی وجہ معاملات زندگی میں دنوں کا تعین ستاروں پر کرنا تھا ۔ یہاں پر صرف جاوید چوہدری صاحب ہی نہیں کچھ دیگر علما بھی لفظ عاھۃ، لفظ ثریا اور لفظ نجم سے غلط استدلال لیتے نظر آئے۔
جامعیہ بنوریہ کی ویب سائٹ پر جائیں یا اںجنئر محمد علی مرزا یا مفتی طارق محسود کی اس موضوع پر گفتگو سنیں وہ ان احادیث کو رسول اللہﷺ کی پیشگوئی بنا کر حالیہ وبا کے متعلق اعلان واظہار کرنے کی عمل کی بھرپور مزمت کررہے ہیں۔ مفتی منیب صاحب نے تو اسی پس منظر میں اپنے کالم میں یوں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جوبعض پیش گوئیاں فرمائیں، اُن میں سِنّ وسال نہیں بتایا، اُنہیں غیر معیّن چھوڑا، تو کسی اور کو قطعیت کے ساتھ اُن کا مصداق متعیّن کرنے کا حق کس نے دیا ؟
اب موصوف کی ثریا ستارے سے متعلق سائنسی تاویلات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان کا یہ کہنا مکمل دروغ گوئی پرمبنی تھی کہ اس ستارے کا انسانی زندگیوں پر کوئی اثر ہو سکتا ہے یا ستاروں کا یہ کلسٹر زمین کا اندرونی اور بیرونی درجہ حرارت بڑھا کر وائرس، بیکٹیریاز اور جراثیم کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ آٹھویں جماعت کے سائنس کی کتاب میں بھی پڑھایا جاتا ہے کہ تمام اجرام فلکی میں سے صرف سورج اورکسی حد تک چاند ہی زمین پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
مذہب اور سائنس کے بعد موصوف نے تاریخ کے ساتھ بھی کچھ کھلواڑ کئے ، حضرت لکھتے ہیں کہ ماضی میں ثریا ستارے کے نمودار ہونے کے بعد طاعون اور اسپینش فلو کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا ۔ جبکہ حقیت یہ ہے کہ انڈیا میں 1896 سے 1906ء تک وبائی بیماری طاعون اور پھرجنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک سپینش فلو کا غلبہ رہا جس نے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لیں ۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ اس دور کی طرح حالیہ وبا میں بھی ستارہ سے ٹمٹانے سے زیادہ کی امید مت رکھنا بے وقوفی ہے۔
کالم نگار کی کالموں میں کورونا وائرس کے حوالے سے مزید روشنی ڈالی جائے تو موصوف ’’صومالیہ یا شمالی کوریا‘‘ کے نام سے لکھے گئے کالم میں اس وبائی مرض کو سنجیدہ نا لینے نا صرف قوم کو کھری کھری سنا رہے ہیں بلکہ حکومت کے ڈھیلا ڈھالے لاک ڈائون پر یوں تنقید کی کہ ’’مزدور دو ماہ بھوک سے مریں یا نہ مریں لیکن یہ کورونا سے ضرور مر جائے گا‘‘۔ یہاں پر موصوف بھول چکے تھے کہ کچھ دن کے فرق سے ’’ہیرڈ ایمونٹی‘‘ نامی کالم میں بزات خود لاک ڈاون آٹھانے کا دفاع کچھ یوں کررہے تھے کہ ’’ایک ایسا ملک جس کے نو کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، ایسے ملک کو کتنا عرصہ بند کیا جا سکتا ہے‘‘ ۔
مئی اور اپریل میں موصوف کے اس وبا کے خلاف خان صاحب والی ’’اسپرٹ‘‘ نظر آئی ۔ ان کے لکھے گئے کالم ’’ہم پھر سے ویسے ہو جائیں گے‘‘ ، ’’تھینک یو کورونا‘‘ اور ’’لاک ڈاون لازم کر دیا جائے‘‘میں یہ سبق پنہاں تھا کہ کورونا تو دراصل نعمت خداوندی ہے، کالموں میں کورونا وائرس کی ان گنت خوبیوں کا زکر کرتے ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کر دیا کہ کو پوری دنیا سے ایک "گلوبل لاک ڈائون چارٹر" سائن کروایں، جس کے تحت دنیا تین، تین ماہ بعد ایک، ایک ہفتے کے لیے لاک ڈائون کر دی جائے تاکہ لاک ڈاون کرہ ارض کو ایک بار پھر چارج کر دے ۔
’’کم از کم‘‘ نامی کالم میں موصوف ایران کے ایک گم نام قصبے کی کتھا سنا کر قوم کو نصحیت کی کہ ملک میں جب تک کورونا کا رقص جاری کم از کم اس وقت تک کھانا فریج میں رکھنا حرام قرار دے دیں۔ موصوف شاید بھول گئے کہ انہوں نے مستقبل میں ایک ایسا کالم لکھنا ہے جہان وہ بتائیں گے کہ مملکت خدادا میں ۹ کروڑ بندہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارتا ہے۔
چوہدری صاحب کا ’’اسلام کا سب بڑا مبلغ‘‘ نامی کالم بھی آنکھوں سے گزرا جس میں موصوف بیان کرتے ہیں کہ مسلمان ہر بار وباؤں سے بچ جاتے ہیں، اس بار بھی بچ رہے ہیں تو اس ثابت ہوتا ہے کہ مذہب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔
’’گولی سے نہیں گولی کی آواز سے‘‘ اور ’’میڈیا زیادہ خطرناک ہے‘‘ جیسے کالموں میں تو موصوف نے خان صاحب کی طرح کورونا سے گبھرانا نہیں کا نعرہ مارتے نظر آئے اور وبائی مرض کے ہولناکی کو فقط سوشل میڈیا کی تخلیق گردانا۔
چونکہ جاوید چوہدری کی ٹالک شوز میں گفتگو کا زیادہ دارومدار مہمانوں پر ہوتا ہے تو متعلقہ موضوع پر ان کے فراہم کردہ معلومات سے آگاہی کے لئے ان کے یوٹیوب چینل کو بھی کھنگالا گیا ہے ۔ وہاں پر موصوف نے ’’کورونا کا علاج نکل آیا‘‘ جیسا کلک بیٹ بھی استعمال کر رکھا تھا ۔ 8 اپریل کی ویڈیو میں دانشور صاحب نے کورونا کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی آپرچیونٹی قرار دی جس سے فائدہ نا آٹھانے پرآنے والی پانچ نسلیں کا معاف نا کرنے کا اندیشہ بتایا ، جبکہ 18 اپریل کو کورونا کی ہولناکی سے آگاہ کر کے اس کو تیسری عالمی جنگ قرار دیتے نظر آئے ۔
آخر میں اللہ جانے کورونا وائرس کے ’’پرچار‘‘ کے لئے کی گئی کالم نگار کی فکری کاوشوں کا کیا انجام نکلے گا، لیکن یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ ہم بحثیت قوم جاہل ہیں ۔ اگر جہالت کے سمندر میں نہ غوطے کھا رہے ہوتے تو ڈاکڑ یاسمین راشد کی جگہ جاوید چوہدری صاحب سے معافی منگوانے کے لئے بھرپور زور لگاتے ۔۔۔۔