کچھ دن پہلے میں اسلام آباد سے حیدر آباد کے لئے سفر کر رہا تھا۔ میری منزل حیدر آباد تھی لیکن میں کراچی پہنچ گیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ صبح کے وقت ہم سو گئے تھے اور پتہ بھی نہیں چلا کہ ٹرین حیدر آباد سٹیشن پر رک کر کراچی کی طرف نکل چکی ہے۔ جب ہمیں پتہ چلا تو ٹرین کراچی پہنچنے والی تھی اور یہ ہمارے لئے پریشانی کا معاملہ تھا کیونکہ ہم کراچی پہلی بار جا رہے تھے اور ہمیں کچھ پتہ نہ تھا۔ تو اب کیا کیا جائے؟ ہم دونوں نے سوچنا شروع کیا کہ کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا ورنہ مصیبت بن جائے گئی۔ پھر آخرکار ہمارا کام ہو گیا اور ہمیں رہائش مل گئی۔ اتفاق کی بات یہ ہے جہاں نہ جانا تھا وہاں چلے گئے۔
اس حادثے سے مجھے ٹینس کے بہت بڑے کھلاڑی آرتھر عش کا واقعہ یاد آیا جب وہ 36 سال کی عمر میں ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوا تھا اور یہ بات اس نے اپنے چاہنے والوں سے چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بیماری زیادہ وقت تک پردے میں نہ رہ سکی۔ اس بیماری کا سب کو پتہ چل گیا اور چاہنے والوں نے خطوط لکھ کر اس کے ساتھ غم کا اظہار کیا۔ ان خطوط میں سے ایک خط 18 سال کے نوجوان کا تھا جو دوسروں سے مختلف تھا۔ اس میں نوجوان نے کہا کہ جب میں عبادت کرنے جاؤں گا تو خدا سے شکایت کروں گا کہ اتنی کم عمر میں تمارے ساتھ غلط کیوں کیا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
آرتھر عش نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے پیارے دوست مجھے غور سے سننا جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ اس دنیا میں ایک لاکھ لوگ ہیں جو ٹینس کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے 50 ہزار لوگ سکول اور کالج تک پہنچتے ہیں۔ ان میں سے 25 ہزار لوگ ہوتے ہیں جو ٹینس کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان میں سے 4 لوگ سیمی فائنل میں جگہ بناتے ہیں۔ ان میں سے 2 لوگ فائنل کھیلتے ہیں اور ان 2 میں سے ایک چیمپئن بن جاتا ہے۔ اتنے لوگوں میں سے جب میں نے تین بار دنیا کے تین سب سے بڑے ٹینس ٹورنامنٹس کا ٹائٹل اپنے نام کیا تب میں نے خدا سے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا، تو اب میں خدا سے کیسے کہوں کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ جب وہ بن مانگے سب کچھ دیتا ہے پھر اس نے بیماری دی تو کیا ہوا؟
آرتھر عش کے اس جواب سے مجھے انڈیا کی ایک سیریز 'فزکس والا' کا ڈائیلاگ یاد آتا ہے۔ اس نے کہا تھا Everything happen for reasonیعنی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ وجہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پھر کبھی لیکن ایک نہ ایک دن اس کا نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے۔ اس وقت ہمیں غلط لگتا ہے لیکن آنے والے وقت میں وہ ہمارے لیے درست ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔