معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کشکول توڑنے کی راہ نکالنی ہو گی

اگر حکومت اور اشرافیہ اب بھی کسی معاہدے پر مفاہمت کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر یہ تاثر ختم نہیں ہو گا کہ اشرافیہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ ان کو آج بھی غریب عوام کے بجائے اپنی آسائشوں اور مراعات کی زیادہ فکر ہے۔

معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کشکول توڑنے کی راہ نکالنی ہو گی

وزیر اعظم کا یہ بیان سن کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ ہمیں آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام لینا پڑے گا۔ لگتا ہے وہ بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح موجودہ مروجہ مالی نظام جس کی بنیاد ہی سودی نظام پر ہے، کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ ان کے اخلاص، انتھک محنت اور قومی خدمت کے جذبے پر کوئی شک نہیں مگر انہیں ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنی سوچ پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ روائتی نظام کے ماہرین جن کی اہلیت اور قابلیت ہی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کر کے دولت کے بہاؤ کو ایک خاص طبقے کی طرف موڑ کر اپنا حصہ وصول کرنا ہے، وہ کیسے خدا اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی صورت حال سے ملک و قوم کو نکال کر ایک آزاد ریاست کے خواب کی تعبیر دے سکتے ہیں۔ قرضوں سے محلوں کی تعمیر اور عیاشیوں کا بندوبست کرنے والے مواقعوں کے متلاشی سودے باز کبھی ترقیوں کے محرک نہیں بن سکتے۔

اگر حکومت واقعی مخلص ہے تو پھر دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ قرضوں اور امداد پر انحصار کی بجائے اپنی آمدن اور اخراجات میں توازن لانا ہو گا جس کے لئے پہلے کشکول کو توڑنے کی کوئی راہ نکالنی ہو گی اور فی الفور ایک آئینی ترمیم لانا ہو گی جس کے تحت آج سے اس خداداد ریاست کے لئے قرضے کی بات کرنے والا غدار وطن ہو گا۔ کشتیاں جلا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے بعد اعداد کی ہیرا پھیری کے ماہرین کو خزانے پر بٹھانے کی بجائے مروجہ آزمائے ہوئے طریقوں سے ہٹ کر متبادل ذرائع کے بارے میں سوچنے والے اس ملک کے ساتھ مخلص، ایماندار، اچھی شہرت، وسیع علم و تجربہ اور کارکردگی کے حامل حقیقی محب وطن معاشی، سماجی، مالی، اقتصادی، تجارتی، نظریاتی، کاروباری، توانائی اور زرعی ماہرین کا تھنک ٹینک بٹھانا پڑے گا جو اس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی حکمت عملی بنائے۔

یہ کوئی مشکل کام نہیں، محض ایک قومی معاہدے کی ضرورت ہے جس کے تحت تجارتی اور گردشی خساروں اور قرضوں کو ختم کرنے کے لئے عوامی جیبوں سے ہاتھ نکال کر اشرافیہ اور عوام کے درمیان حائل آسائشوں کی بنی ہوئی تفریق کے حصار کو توڑ کر عوام کے حکومت پر اعتماد کو بحال کرنا ہو گا اور برابری کی بنیاد پر بنائی گئی صفوں میں سب کو کھڑا کر کے آگے بڑھنے کی راہ کا انتخاب کرنا ہوگا جس کی ہمارے آئین کا دیباچہ اور شہریوں کے حقوق کا ابتدائی باب ضمانت دیتا ہے۔

تمام شہریوں میں سے خاص و عام کی تقسیم کو ختم کر کے سب کو دو وقت کی سوکھی روٹی اور پانی کا گلاس ہو یا دیسی گھی کی چوری میسر ہو، سب کو ایک جیسے حالات میں زندہ رہنے کا ایک قومی معاہدہ کرنا ہو گا اور اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے اس ملک کے خزانے سے حاصل تمام سہولتوں اور آسائشوں کو برابری کی بنیاد پر یقینی بنانے کی سادہ سی قانون سازی کرنا ہو گی۔ جس دن اس پر عمل شروع ہو گیا وہ اس ملک کی تقدیر کو بدل کر حقیقی انقلاب لانے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔

کشکول توڑنے کے لئے تمام تر بیرونی قرضوں کو اندرونی قرضوں میں بدلنا ہو گا جس کے لئے ملک پر موجود قرضوں کی رقم عوام کی جیبوں سے زبردستی نکالنے کی بجائے قوم سے مستعار یا منافع کی شرائط پر لینی ہو گی۔ اس پر عمل کے لئے کوئی قومی مالی بانڈز متعارف کروا کر معاملہ حل ہو جائے یا معاشی ایمرجنسی نافذ کر کے قومی اور عوامی اثاثوں سے ان قرضوں کی یکمشت ادائیگی کو عملی طور پر یقینی بنا لیا جائے، اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ پوری قوم برابری کی سطح پر مہیا خوراک اور سہولتوں کے عوض اس وقت تک ملکی معاملات چلانے میں رضاکارانہ طور پر خدمت کرے گی جب تک ہم ایک آزادانہ تجارتی پالیسی سے اپنے تمام تر انتظامی، تجارتی، مالی اور کاروباری معاملات کو معمول پر نہیں لے آتے۔ اس کے بعد ایک غیرت مند قوم کی طرح ریاست کو چلانے کے عالمی سطح پر نئے معاہدے کئے جائیں جن میں تمام تر ماضی کی مجبوریوں سے ہٹ کر آزادانہ تجارتی معاہدے ہوں اور جہاں سے جو شے سستی ملے، اس کو خریدا جائے اور اپنی مصنوعات کی قیمتوں کا جائز تعین کروانے کے لئے ایماندارانہ حکمت عملی کے تحت کوالٹی کی بنیاد پر کاربند رہنے کے اصول کے تحت اقدامات پر سختی سے عمل کروایا جائے۔

مالی پالیسیوں میں حکومتی اخراجات کو کم کرنے سے بچنے والی رقم سے تعلیم اور صحت کو بہتر کیا جائے اور توازن کے لئے ٹیکسز بڑھانے کی بجائے تجارت کے فروغ اور افرادی قوت کے ذرائع کے استعمال کی طرف توجہ دے کر بنیادی تعلیم اور صحت کے علاوہ باقی خدمات کے شعبوں کو نجی حلقے کی طرف بالترتیب لا کر ذمہ داریوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں مگر اس کے لئے سرمایہ کار کو امن، منافع، بدعنوانی سے پاک ماحول اور مالی تحفظ کا احساس دینے کے لئے مالی پالیسیوں کو متعارف کروانا پڑے گا۔

خوراک میں خود کفیل ہونے کے لئے ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا جس میں قوم فاقہ کشی کر کے بھی اپنی خوراک کی ضروریات کے پورا ہونے کو یقینی بنا سکتی ہے اور یہ کوئی بہت بڑا ٹارگٹ نہیں ہو گا۔ اس کے لئے صرف ایک جامع زرعی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں اپنی ضروریات کو موجودہ قابل کاشت زمین کے اعداد و شمار سے ہم آہنگ کاشت کاری کا منصوبہ ترتیب دینا ہو گا اور زمین دار کو پیشگی اس کی فصل کے نرخ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا جو کسی بھی طرح سے مشکل ٹاسک نہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اسی طرح توانائی کے بحران کے لئے بھی متبادل ذرائع دیکھنا ہوں گے جن کا حل پنجاب اور دوسرے صوبوں کے علاقے جہاں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے، ان پر ہائیڈل پاور پلانٹس، جوہری توانائی، سولر اور ونڈ ٹیکنالوجی کی طرف توجہ ہے تا کہ توانائی کے حصول کے سستے ترین ذرائع سے حاصل توانائی پر انحصار کی طرف بڑھا جائے۔

ہمارا جتنا بھی ملکی سرمایہ بیرونی ممالک میں پڑا ہوا ہے اس کو قومی جذبے کے تحت رضاکارانہ طور پر واپس لانا ہو گا اور ملک کی 75 سالہ تاریخ کے کھوکھلے دعوؤں اور نعروں کو اب عملی جامہ پہنانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اب اس قوم کو اپنی حب الوطنی کے دعوؤں کا یقین دلانا ہو گا کہ ہم سب بحیثیت شہری اس ملک سے حاصل کئے گئے فوائد کے بدلے اس دھرتی کو مشکل میں ہر وہ شے لوٹا دیں جس کا وہ آج ہم سے اس معاشی بحران میں تقاضا کر رہا ہے۔ یہ ہمارا ایک قومی فریضہ بھی ہے اور امتحان بھی۔

حالیہ برسوں میں جو بھی ملکی سرمایہ لے کر دیوالیہ ہونے کے خوف سے یہاں سے بھاگے ہیں ان کا پورا ڈیٹا ریاست کے پاس موجود ہے۔ ان کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے اس قومی انقلابی معاہدے میں شامل ہو جائیں اور اگر وہ اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں تو جو دھرتی ماں کو بیمار چھوڑ کر بھاگے ہیں اور ان کا ضمیر نہیں جاگتا تو ان سے ناطہ ختم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے

ہمیں امید ہے کہ اگر حکومت اخلاص کی بنیاد پر کوئی انیشی ایٹو لے گی تو اوورسیز پاکستانی قوم کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

اگر حکومت اور اشرافیہ اب بھی اس طرح کے کسی معاہدے پر مفاہمت کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر قوم کو اس تاثر سے نہیں نکالا جا سکے گا کہ ملک کی اشرافیہ آج بھی اس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے مخلص دکھائی نہیں دیتی بلکہ ان کو آج غریب عوام کی نہیں بلکہ اپنی آسائشوں، تنخواہوں، وظائف، مراعات اور عیاشیوں کے ختم ہونے کے خطرات کے پیش نظر ایک اور دھوکے میں ڈالنے کی کوشش ہے۔ وگرنہ اگر وہ واقعی مخلص ہیں تو ان کو اس ملک کے خزانے سے حاصل شدہ آسائشوں اور مراعات کی تقسیم میں امتیازی سلوک کی ظالمانہ پالیسیوں اور قوانین کو ٹھوکر لگانا ہو گی، وگرنہ یہ نئے نئے چہرے بدلنے کے نئے تجربوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

ہمارے معاشی بحران ہوں یا سیاسی، ان کے زیادہ تر ذمہ دار ہمارے انتظامی امور ہیں جن کی وجہ سے عوامی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ خواہ ڈالر کی محبت میں روپے کی قدر کو خاک میں ملانے کی کوششیں ہوں یا فنڈ ریلیز ہونے کے باوجود عوام تک ریلیف نہ پہنچنے کا عمل یا عوامی مشکلات جن میں صحت کا سبب بننے والی ناقص ادویات اور غذاؤں کی بندش میں ناکامی اور عوام کی شکایات سن کر انصاف فراہم کرنے والے اداروں یا انتظامی اداروں کی کارکردگیاں ہوں، ان کی انتظامی نااہلیوں کا بہت بڑا کردار ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان میں تبدیلی نہ آئی تو یہ قرضوں اور مہنگائی کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ جس طرح پچھلے 5 سالوں میں 70 سالوں کا قرضہ دگنا ہوا ہے اس نئے تجربے سے یہ مزید دگنا ہو جائے گا۔

اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے جس بھی چیلنج سے نمٹنے کی ٹھان لی ہے کبھی بھی ناکامی نہیں ہوئی، وہ خواہ محدود وسائل ہوتے ہوئے اٹامک پاور بننے کا خواب ہو یا ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ اس قوم کے پاس بے بہا صلاحیتیں ہیں مگر ان کا غلط استعمال بدعنوانی اور آپس کی چپقلشوں پر ہو رہا ہے اور جس دن ان کی سمت ترقی اور خوشحالی کر طرف مڑ گئی تو اس میدان میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ بس ضرورت اس کو سمجھ کر اس پر عمل کے ماحول کو ممکن بنانے کی ہے۔

قومی سطح پر خیالات، پالیسیوں اور عملی تجربوں پر محیط ایک مثبت مقابلہ کروانا ہو گا جس میں ملک کو موجودہ مالی قرضوں سے جان چھڑوانے کی تدابیر اور میکنزم بنانے کے لئے قومی ٹیلنٹ کو دعوت عام دینا ہو گی۔ جو عملی طور پر اس کا اطلاق کر کے ان بیرونی قرضوں سے جان چھڑوائے اس کو قومی ہیرو مانا جائے گا۔ اس حوصلہ افزائی کی خاطر قانون سازی بھی کرنی پڑے تو کرنا ہو گی۔

اگر کوئی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے قرضوں کی ادائیگی کر کے معاشی غلامی سے آزادی دلاتا ہے تو اسے قائد قوم کے قومی جانشین کا درجہ دے کر جہاں جہاں قائد کی تصاویر آوایزاں ہیں وہاں اس ملک کو معاشی غلامی سے نجات دلا کر کشکول توڑنے والے کی تصاویر بھی لگانے کا قومی عہد کرنا ہو گا۔