Get Alerts

خلیجی سرمایہ کاری سے پاکستان کا چین پر انحصار کم ہو جائے گا؟

سرمایے کی کمی سے دوچار پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کا عزم بہت بڑا ریلیف ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

خلیجی سرمایہ کاری سے پاکستان کا چین پر انحصار کم ہو جائے گا؟

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے پاکستان کی کمزور معیشت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر لیا ہے کیونکہ عرب شاہی خاندان خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں اور پاکستان چین کی امداد پر اپنا بڑھتا انحصار کم کرنے کا خواہش مند ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النیہان سے ملاقات کی جس کے بعد یو اے ای نے پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

متحدہ عرب امارات کا یہ معاہدہ 15 مئی کو چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کو بحال کرنے کے دباؤ کے بعد سامنے آیا ہے، جبکہ سعودی عرب نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ پاکستان میں اندازاً 25 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پروگرام میں سے 5 ارب ڈالر فوری طور پر لگانے جا رہا ہے۔

نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا فروا عامر کا کہنا ہے کہ سرمایے کی کمی سے دوچار پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کا عزم بہت بڑا ریلیف ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

فروا عامر کے مطابق متنازعہ عام انتخابات کے بعد مارچ کے اوائل میں حکومت میں آنے کے بعد سے شہباز شریف کی حکومت نے مال دار خلیجی شاہی ریاستوں، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اعلیٰ سطح پر رابطوں کو مزید فعال کیا اور اپنی توجہ باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے اور پاکستان کے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر مرکوز کر لی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سٹریٹجک گٹھ جوڑ وسیع تر علاقائی رجحانات کا عکاس ہے، جہاں خلیجی ریاستیں خطے میں اپنا اثر و رسوخ بھرپور انداز میں بڑھا رہی ہیں۔ بھارت سے متعلق حالیہ اقدامات بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

یہ سرمایہ کاری اس لیے بھی ممکن ہوئی کیونکہ پاکستان نے گذشتہ سال جولائی سے آئی ایم ایف کی ہدایات پر ملک میں کئی کفایت شعار پالیسیاں مرتب کیں۔ یہ شرائط آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کے ہنگامی بیل آؤٹ پیکج سے قبل رکھی تھیں اور اس پیکج نے پاکستان کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے معاملے میں ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا تھا۔

آئی ایم ایف نے اس پروگرام کی آخری قسط کے طور پر 1.1 ارب ڈالر یکم مئی کو پاکستان کو دیے ہیں۔ فریقین کے مابین حال ہی میں اسلام آباد میں کم از کم 6 ارب ڈالر کے نئے ریسکیو پیکیج کے لیے مذاکرات بھی ہوئے ہیں اور یہ نیا معاہدہ تین سے چار سال کے لیے ہو گا۔

آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے ان مذاکرات کو سودمند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات آنے والے دنوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے جاری رہیں گے تاکہ یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال 2024-25 کے بجٹ سے پہلے پہلے اس معاہدے پر اتفاق کیا جا سکے۔

پاکستان کو رواں سال جولائی سے جون 2025 تک 86 ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 24 ارب ڈالر درکار ہیں۔

ناتھن پورٹر نے کہا کہ مذاکرات میں معاشی اصلاحات لانے سے متعلق پاکستانی حکام کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری مالی امداد پر بات چیت ہو گی۔ ان اصلاحات کا مطالبہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے دیگر شراکت داروں کی جانب سے کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی نظام میں تبدیلیاں تجویز کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں معاشی استحکام لانے کے بعد اسے مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی سے ہمکنار کیا جا سکے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان کا قریبی اتحادی چین اسے سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک ہے۔ 2022 سے اب تک چین نے پاکستان کے لیے 6.5 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری فنانسنگ کی ہے اور پاکستان کے مرکزی بینک میں 4 ارب ڈالر جمع کروا کر کم ہوتے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دیا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان میں مجموعی طور پر 4 ارب ڈالر جمع کروائے ہیں۔ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں پاکستان اور مصر جیسے اتحادی ملکوں کے لیے مالی امداد دینے پر اپنی شرائط سخت کر دی تھیں۔ انہوں نے پاکستان اور مصر پر زور دیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات نافذ کریں اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کریں۔

متحدہ عرب امارات نے رواں سال فروری سے مصر کو 35 ارب ڈالر جاری کیے ہیں اور مصر نے بحیرہ روم کے ساحلی شہر راس الحکمہ کو جدید تجارتی شہر اور سیاحتی مقام بنانے کے لیے فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ فروا عامر نے بتایا کہ خلیجی ملکوں کے لیے یہ شراکت داری محض خیر سگالی کے اشاروں سے کچھ زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان ملکوں کو پیچیدہ جغرافیائی اور سیاسی حرکیات کے تناظر میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں زیادہ دلچسپی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عرب ریاستوں میں پاکستانی تارکین وطن کی ایک کثیر تعداد آباد ہے اور وہاں کی معیشت میں ان پاکستانیوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں 40 لاکھ سے زائد پاکستانی کام کرتے ہیں اور ہر سال کروڑوں روپے وطن واپس بھجواتے ہیں۔

فروا عامر کے مطابق پاکستان کویت اور قطر سے سرمایہ کاری حاصل کر کے اپنی معیشت کے انتہائی اہم شعبوں میں مزید لچک پیدا کر سکتا ہے۔ یہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے کہ وہ محض چین اور آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے سرمایہ کاروں اور مالی امداد دینے والے ملکوں کے نیٹ ورک کو مزید وسعت دے۔

کراچی میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی 'نیکسٹ کیپٹل' کے منتظم اعلیٰ نجم علی کہتے ہیں کہ گذشتہ سال سے ہونے والی اصلاحات کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور بیرونی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بہت حد تک بڑھا ہے۔ پاکستان کی طاقتور فوج کی زیر نگرانی قائم ہونے والا ادارہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اس کی بڑی وجہ ہے۔

نجم علی نے کہا کہ پاکستان کو یہ نشاندہی کرنے پر بہتر انداز میں کام کرنا چاہیے کہ وہ کن شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور ان شعبوں کو ترقی دینے پر محنت کرنی چاہیے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ اس ضمن میں پاکستانی ریاست کے تمام بڑے اداروں کے سبھی سٹیک ہولڈرز کی جانب سے نیک نیتی ظاہر کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات رکھنے والی جماعتوں پر مشتمل پاکستان کی کاروبار دوست اتحادی حکومت بھی سرمایہ کاری سے متعلق خلیجی ملکوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوئی ہے مگر پاکستان میں سکیورٹی کے مسائل ان ملکوں کے لیےاب بھی باعث تشویش ہوں گے۔

فروا عامر نے کہا کہ پاکستان کے شمالی اور مغربی حصوں میں سکیورٹی کی خراب صورت حال پر عرب ریاستوں کی بھی بلاشبہ گہری نظر ہو گی جہاں حالیہ برسوں میں متعدد چینی شہری دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کامیابی سکیورٹی مسائل کو مؤثر انداز میں حل کرنے، سیاسی منظرنامے کو مستحکم کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری کو دیرپا بنانے کے لیے اہم اقتصادی اصلاحات نافذ کرنے جیسے اقدامات پر منحصر ہو گی۔

*

تجزیہ کار Tom Hussain کا یہ مضمون South China Morning Post میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

ٹام حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ یہ وسطی اور جنوبی ایشیا کی کوریج کا 35 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔